سورة البقرة - آیت 109

وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اہل کتاب کے اکثر لوگ چاہتے ہیں کہ حق واضح ہوجانے اور تمہارے ایمان لانے کے بعد اور اپنے حسد و بغض کی بناء پر تمہیں ایمان سے ہٹا کر کافر بنا دیں۔ بس تم معاف کرو اور درگزر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ فرما دے یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

كَثِيْرٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ....: اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل کتاب شامل ہیں اور بعد میں آنے والے تمام زمانوں کے یہود و نصاریٰ بھی، جیسا کہ ہمارے دور میں ان کی طرف سے علم و تحقیق کے نام پر اسلام کے عقائد و احکام کے خلاف پروپیگنڈا ہو رہا ہے اور ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ مسلمان اگر یہودی یا نصرانی نہ بنیں تو کم از کم اپنے دین سے ضرور بدگمان ہو جائیں۔ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ....: حق کو پہچاننے کے باوجود ان کی یہ خواہش محض حسد کی وجہ سے ہے اور حسد بھی کسی دینی جذبے کی وجہ سے نہیں ، بلکہ ان کے دلوں کے بغض و عناد کی وجہ سے ہے۔ اس سے حسد کی قباحت ظاہر ہوئی کہ خود بھی ایمان سے محروم رہے اور دوسروں کے پاس یہ نعمت دیکھنا بھی برداشت نہیں ۔ ابلیس کا سجدے سے انکار، قابیل کا اپنے بھائی کو قتل کرنا، برادران یوسف کا اپنے بھائی پر ظلم اور اہل کتاب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کے باوجود انکار اور دشمنی کا باعث یہی حسد تھا۔ فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا....: یعنی جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے ساتھ لڑائی کا حکم نہ آ جائے اس وقت تک عفو و درگزر سے کام لو، ان کے اوچھے حملوں اور حسد و بغض کی وجہ سے بے قابو نہ ہونا۔ پھر لڑائی کا حکم آنے پر بنو نضیر اور بنو قینقاع کو جلا وطن ہونا پڑا اور بنو قریظہ قتل ہوئے۔