أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَىٰ أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ ۖ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ
اور کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ آسمانوں اور زمین کی عظیم الشان سلطنت میں اور کسی بھی ایسی چیز میں جو اللہ نے پیدا کی ہے، اور اس بات میں کہ شاید ان کا مقررہ وقت بالکل قریب آچکا ہو، پھر اس (قرآن) کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے۔ (١٨٥)
1۔ اَوَ لَمْ يَنْظُرُوْا فِيْ مَلَكُوْتِ السَّمٰوٰتِ: ’’مَلَكُوْتِ ‘‘ یہ ’’مُلْكٌ ‘‘ کے لفظ میں واؤ اور تاء کا اضافہ معنی میں وسعت کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’عظیم الشان سلطنت‘‘ کیا گیا ہے۔ دلائل کونیہ یعنی اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان سلطنت سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کا ثبوت مل رہا ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس توحید کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ آسمان و زمین کی عظیم الشان سلطنت اور پوری کائنات کی ایک ایک چیز بلکہ ایک ایک ذرے سے ثابت ہو رہی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ﴿ وَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ ﴾ کے الفاظ کے ساتھ اس سلطنت میں جو بھی بڑی سے بڑی یا چھوٹی سے چھوٹی چیز پیدا فرمائی ہے اس کی طرف نگاہ کرنے کی بھی دعوت دی ہے۔ اتنی بڑی سلطنت کا ہر ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ مجھے کوئی پیدا کرنے والا ہے اور وہ ایک ہے کہ اس عظیم الشان سلطنت کے کسی حصے میں کوئی خرابی، کوئی ٹکراؤ یا حادثہ نہیں۔ 2۔ وَّ اَنْ عَسٰى اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ: اور کیا انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ ان کا مقرر وقت بالکل قریب آپہنچا ہو، یعنی موت کا مقرر وقت تو کسی کو معلوم نہیں، انسان کو کم از کم یہی سمجھ کر اپنے عقائد و اعمال کی پڑتال کرتے رہنا چاہیے کہ شاید اس کی موت کی گھڑی قریب آ گئی ہو، مگر یہ بدبخت اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ 3۔ تفکر اور غور وفکر کی دعوت اس بات کی دلیل ہے کہ تقلید کا عذر قیامت کے دن کسی کام نہیں آئے گا۔ 4۔ فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۭ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ: یعنی قرآن سے بڑا معجزہ کیا ہو گا اور اس سے بہتر نصیحت کس کتاب میں ہو گی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر سمجھانے والا اور کون ہو گا، جس کی باتوں پر یہ ایمان لائیں گے؟ آئندہ آیت سے معلوم ہو رہا ہے کہ ان کے ایمان نہ لانے کا اصل باعث ان کا تکبر اور سرکشی ہیں جو انھیں غوروفکر کرنے ہی نہیں دیتے۔