فَكَذَّبُوهُ فَأَنجَيْنَاهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا عَمِينَ
پھرانہوں نے اسے جھٹلادیا تو ہم نے اسے اور ان لوگوں کو جو کشتی میں اس کے ساتھ تھے بچالیا اور ان لوگوں کو غرق کردیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا یقیناً وہ اندھے لوگ تھے۔“ (٦٤)
فَاَنْجَيْنٰهُ وَ الَّذِيْنَ مَعَهٗ....: آخر مومنوں کو سفینے( بحری جہاز) میں اﷲ تعالیٰ نے نجات دی اور مخالفین طوفان سے ہلاک ہو گئے۔ اہل تاریخ کا کہنا ہے کہ طوفان نوح کا تخمینی سال ۳۲۰۰ قبل مسیح ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ نوح علیہ السلام کا یہ سفینہ تین منزلہ تھا، طول۳۰۰ ہاتھ، عرض۵۰ ہاتھ اور اونچائی ۳۰ ہاتھ، لیکن ان باتوں کی کوئی دلیل نہیں۔ تورات کے بیان کے مطابق یہ جہاز تقریباً پانچ ماہ چلتا رہا، مگر ہمارے پاس اس کی تصدیق یا تکذیب کا کوئی ذریعہ نہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میں اور مختلف پہاڑوں پر ایک قدیم اور زبردست طوفان کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں۔ قصۂ نوح کی تفصیل سورۂ نوح اور سورۂ ہود وغیرہ میں ہے۔ ان کا اندھا پن یہ تھا کہ حق نہ دیکھتے تھے اور نہ قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔