سورة الاعراف - آیت 43

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ان کے سینوں میں جو بھی کینہ ہوگا ہم نکال دیں گے ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ کہیں گے سب تعریفیں اللہ کی ہیں۔ جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور ہم کبھی نہ تھے کہ ہدایت پاتے، اگر ہمیں اللہ ہدایت نہ دیتا، بلاشبہ ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے اور انہیں آواز دی جائے گی کہ یہی وہ جنت ہے جس کے وارث تم بنائے گئے ہو اپنے اعمال کے بدلے۔“ (٤٣)

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ نَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اہل جنت کے اوصاف میں ایک لمبی حدیث میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ان کے دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہوں گے، نہ ان میں کوئی اختلاف ہو گا نہ باہمی بغض۔‘‘ [ بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ : ۳۲۴۶ ] دنیا میں اگر ان کے درمیان کوئی بغض تھا تو وہ صاف ہونے کے بعد جنت میں داخلہ ہوں گے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مومن آگ سے بچ کر نکلیں گے تو انھیں جنت اور آگ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا، پھر وہ ایک دوسرے سے ان زیادتیوں کا قصاص لیں گے جو دنیا میں ان سے ہوئیں یہاں تک کہ جب وہ تراش خراش کروا کر بالکل صاف ستھرے ہو جائیں گے تو انھیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔‘‘ [ بخاری، المظالم، باب قصاص المظالم : ۶۵۳۵، عن أبی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ ] سینوں میں موجود کینے میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کی باہمی رنجشیں بھی شامل ہیں، جو دنیا میں سیاسی یا دوسری وجوہات کی بنا پر پیدا ہوئیں۔ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا ....: یعنی یہ ہدایت جس سے ہمیں ایمان اور عمل صالح کی توفیق عطا ہوئی، پھر انھیں قبولیت کا شرف حاصل ہوا، یہ اﷲ تعالیٰ کی خاص رحمت اور اس کا فضل ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو ہم یہاں تک نہ پہنچ پاتے۔ 3۔ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ: یہ باء سببیہ ہے، باء عوض نہیں، یعنی اﷲ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ یہ جنت میرے فضل سے تمھارے کسی عوض یا قیمت اداکیے بغیر تمھیں بطور ہبہ دی جا رہی ہے، جیسا کہ میراث بغیر کسی عوض کے دی جاتی ہے اور تمھاری اس عزت افزائی کا سبب دنیا میں تمھارے اعمال صالحہ ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : ’’تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں ہر گز داخل نہیں کرے گا۔‘‘ لوگوں نے کہا : ’’یا رسول اﷲ ! آپ کو بھی نہیں؟‘‘ فرمایا : ’’نہیں، مجھے بھی نہیں، مگر یہ کہ اﷲ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت سے ڈھانپ لے۔‘‘ [ بخاری، الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل : ۶۴۶۳، ۶۴۶۴ ] آیت سے معلوم ہوا کہ اﷲ کی رحمت انسانی اعمال کی بنیاد پر ہو گی، یعنی اس کے اعمال صالحہ ہی رحمت کا سبب بنیں گے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۱۸)۔