وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ
بلاشبہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی اور ان کے بعد مسلسل رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم ( علیہ السلام) کو واضح دلائل دیے۔ اور روح القدس سے اس کی تائید فرمائی۔ جب تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی تو تم نے تکبر کیا پس ایک جماعت کو تم نے جھٹلا دیا اور دوسری جماعت کو تم نے قتل کر ڈالا
137: بنی اسرائیل کے بعض دوسرے جرائم کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ اللہ نے انہیں تورات دی جسے بدل ڈالا، موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان میں دیگر انبیاء ورسل بھیجے تاکہ تورات کو نافذ کریں، لیکن ان کے ساتھ بد ترین معاملہ کیا، ان کو جھٹلایا اور کتنوں کو قتل کیا، اور آخر میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث کیا، جنہوں نے اللہ کے حکم سے تورات کے بعض احکام میں تبدیلی کی، تو بنی اسرائیل نے ان کو جھٹلایا، اور ان کے خلاف حسد و عناد کا شیوہ اختیار کیا، انبیاء کے ساتھ ان کا ایسا معاملہ اس لیے رہا کہ ان کی خواہشات نفس کے مطابق ان کی باتیں نہ ہوتیں تھیں، اور انہیں تورات کے صحیح احکام پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ 138: (بینات) سے مراد وہ معجزے ہیں جو اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے، اور جن کا ذکر آل عمران اور المائدہ میں آیا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ مٹی سے بنے ہوئے چڑیا کے مجسمے میں پھونک مارتے تھے تو اللہ کے حکم سے اڑنے لگتی تھی، مادر زاد نابینا اور سفید داغ کے مریض پر ہاتھ پھیرتے تھے تو مریض شفایاب ہوجاتا تھا، لوگوں کو بہت سی غیب کی باتیں بتا دیا کرتے تھے، انہوں نے دعا کی اور آسمان سے لوگوں کے لیے کھانا اتر آیا، اور سب سے بڑا معجزہ انجیل کا نزول تھا۔ 139: روح القدس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں، ابن مسعود اور ابن عباس کا یہی قول ہے اور حضرت عائشہ کی حدیث (اللہم اید حسان بروح القدس) سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس حدیث کی بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حسان سے کہا اھجہم، اوھاجہم، وجبریل معک۔ یعنی کفار کی ہجو بیان کرو، جبریل تمہارے ساتھ ہیں۔