وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا
اور بہت سے رسولوں کی طرف جنہیں ہم اس سے پہلے آپ سے بیان کرچکے ہیں اور بہت سے ایسے رسولوں کی طرف بھی جنہیں ہم نے آپ سے بیان نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، ازخود کلام کرنا۔“ (١٦٤)
152۔ اس آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ نے موسیٰ سے بات کی یعنی اللہ تعالیٰ بغیر کسی واسطہ کے موسیٰ (علیہ السلام) سے مخاطب ہوا اور یہ اللہ کی طرف سے موسیٰ (علیہ السلام) کی انتہائے تکریم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے لیے صفت کلام کو ثابت کیا ہے۔ جہور سلف اور اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جسے اس نے اپنے رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر نازل کیا، اور یہ غیر مخلوق ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ کی صفت ہے۔ معتزلہ اور بعض دوسرے گمراہ فرقوں نے اس کا انکار کیا ہے، انہیں معتزلہ میں سے ایک آدمی کے بارے میں ابوبکر بن عیاش کو معلوم ہوا کہ اس نے اس آیت میں تحریف کر کے پڑھا یعنی کلمہ اللہ کو مفعول بنا دیا تاکہ معنی یوں ہوجائے کہ موسیٰ نے اللہ سے بات کی، یعنی اللہ نے موسیٰ سے بات نہیں کی، تو ابو بکر نے کہا کہ اس طرح ایک کافر ہی پڑھے گا۔ اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ لوگ قرٓان کی آیت کو کیا کریں گے، اس میں تو فاعل رب ہے، اور یہاں تحریف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔