وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا
اور اللہ تعالیٰ تمہاری طرف یہ حکم اتار چکا ہے جب تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو۔ جب تک وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں ورنہ تم بھی ان جیسے ہوگے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کافروں اور منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے
133۔ مشرکینِ مکہ اپنی مجلسوں میں قرآن کریم کا مذاق اڑاتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے ساتھ بیٹھنے سے منع فرمایا، اور سورۃ الانعام کی آیت 28 نازل کی، ۔ جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیتوں میں عیب جوئی کرتے ہیں، تو ان سے کنارہ کش ہوجائیے، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں، اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھئے۔ چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمانوں نے کافروں کے ساتھ بیٹھنا بند کردیا۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو یہود اور منافقین کے ساتھ ان کی مجلسوں میں بیٹھنا شروع کردیا، جہاں یہود قرآن کریم کا مذاق اڑاتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی، جس میں مسلمانوں کو یاد دلایا گیا کہ اس کے قبل قرآن میں اللہ کا حکم آچکا ہے کہ جن مجلسوں میں کفار قرآن کریم کا مذاق اڑایا کریں، ان میں نہ بیٹھو، اس لیے کہ تمہارا ان کے ساتھ بیٹھنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی آیتوں کے انکار کیے جانے اور ان کا مذاق اڑائے جانے پر تم راضی ہو، پھر کفر اور عذاب جہنم کے مستحق ہونے میں تم انہی کی مانند ہوجاؤ گے، جیسا کہ اللہ نے آگے فرمایا کہ اللہ منافقین اور کفار کو جہنم میں اکٹھا کردے گا۔ حاکم کہتے ہیں کہ جو علمائے اسلام ملحدین اور مخالفین اسلام کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لیے ان کی مجلسوں میں جاتے ہیں، ان کے لیے کوئی ممانعت نہیں، بلکہ انہیں اجر و ثواب ملے گا، اور اگر کسی مجلس میں اللہ، رسول یا دین اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، تو جو شخص اس سے راضی ہوگا، وہ کافر ہوجائے گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یعنی تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے، ابن جریر نے ضحاک کا قول نقل کیا ہے کہ ہر وہ آدمی جو دین میں کوئی نئی بات پیدا کرتا ہے، اور قیامت تک ہر بدعتی اس آیت کے ضمن میں آئے گا۔ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ چونکہ قرآن کریم میں خصوصِ سبب کا نہیں بلکہ عمومِ لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، اس لیے ہر وہ مقام و موقف جہاں دلائل شرعیہ کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اس سے اجتناب کرنا واجب ہے، مثال کے طور پر اسیران تقلیدِ شخصی جو قرآن و سنت کے بدلے میں لوگوں کے آراء کو قبول کرتے ہیں، اور جب کسی عالم کو اس مسئلہ پر قرآن و سنت سے استدلال کرتے دیکھتے ہیں، تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں، اور لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ اس نے ان کے امام مذہب کی مخالفت کر کے، جس کو انہوں نے معلم شریعت ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا مقام دے رکھا ہے، کسی بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے، ایسے لوگوں کی مجلسوں سے پرہیز کرنا لازم ہے۔