وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِن بَعْلِهَا نُشُوزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۚ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۗ وَأُحْضِرَتِ الْأَنفُسُ الشُّحَّ ۚ وَإِن تُحْسِنُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی بد سکونی اور بے پرواہی کا خوف ہو تو دونوں آپس میں (کچھ حقوق کی کمی و بیشی پر) صلح کرلیں اس میں کسی پر کوئی گناہ نہیں۔ صلح بہت بہتر ہے اور لالچ ہر نفس میں پایا جاتا ہے۔ اگر تم اچھا سلوک کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو تم جو کر رہے ہو اس سے اللہ تعالیٰ پوری طرح خبر دار ہے
124۔ اس آیت کریمہ میں شوہر اور بیوی سے متعلق ایک حکم بیان کیا گیا ہے، کہ اگر بیوی اپنے شوہر کی طرف سے بے رخی کا اندازہ لگار رہی ہو، مثال کے طور پر اس کے ساتھ ایک بستر میں سونا چھوڑ دے یا اس کے اخراجات میں کمی کر دے، یا اس کے ساتھ بیٹھنا اور بات چیت کرنا بند کردے، تو دونوں کے لیے مناسب یہ ہے کہ آپس میں بیٹھ کر صلح کرلیں اور اس بات پر اتفاق کرلیں کہ شوہر اس کا حق ادا کرے جیسا کہ اسلام کا تقاضا ہے، اور اگر ایسا ممکن نظر نہ آئے اور بیوی چاہتی ہو کہ ازدواجی زندگی قائم رہے، تو مہر یا اخراجات کا کچھ حصہ چھوڑ دے یا شوہر کو کچھ اور مال دے دے، یا اگر اس کے پاس کوئی دوسری بیوی ہے جسے وہ زیادہ چاہتا ہے تو اپنی باری کے کچھ ایام اس کو دے دے اور شوہر اسے طلاق نہ دے، اور اگر یہ دونوں ہی صورت ممکن نہ ہو تو پھر شوہر طلاق دے دے، لیکن صلح میں ہر بھلائی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی چیز کسی کو نہ دینا، اس معاملہ میں بخل سے کام لینا ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے، اس لیے بیوی کو چاہئے کہ شوہر کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے اپنے بعض حقوق سے دست بردار ہوجائے، اسی طرح شوہر کے طبع بخل کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس کی جانب سے کم ہی پر راضی ہوجائے، اور مال کثیر کا مطالبہ کر کے اسے زیر بار نہ کرے، تاکہ صلح کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہوسکے۔ امام بخاری (رح) نے عائشہ رضی ا للہ عنہا سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ایسی عورت کے بارے میں ہے جس کا شوہر اب اسے نہیں چاہتا، اسے طلاق دے کر کسی دوسری عورت سے شادی کرنی چاہتا ہے، بیوی کہتی ہے کہ مجھے طلاق نہ دو اور دوسری شادی کرلو، اور میں اپنے نان و نفقہ اور اپنی باری سے دست بردار ہوتی ہوں۔ حاکم نے عروہ کے واسطے سے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ اے میرے بھانجے ! رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) باری کے معاملہ میں ہم میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیتے تھے، اور تقریباً ہر دن ہم سب کے پاس آتے تھے ہر بیوی کے قریب ہوتے لیکن چھوتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ جس کی باری ہوتی اس کے پاس پہنچتے، اور وہاں رات گذارتے، سودہ بنت زمعہ (رض) بوڑھی ہوگئی تھیں اور انہیں ڈر ہوگیا تھا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) انہیں چھوڑ دیں گے، انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! میں اپنی باری عائشہ کو دیتی ہوں، تو آپ نے اسے قبول کرلیا۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ اور اسی طرح کے دیگر حالات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے علماء نے لکھا ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ایسا اس لیے کیا تاکہ امت کے لیے آپ کا عمل نمونہ بنے اس کے بعد اللہ نے شوہروں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اگر تم لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کروگے، اور ان کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو گے، تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے، اس کا تمہیں اچھا بدلہ دے گا۔