سورة المنافقون - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

سورۃ المنافقون مدنی ہے، اس میں گیارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں ۔ تفسیر سورۃ المنافقون نام : پہلی آیت کا پہلا فقرہ İإِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ) ہے، اسی سے اس کا نام ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول :۔ قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مدنی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورہ المنافقون مدینہ میں نازل ہوئی تھی مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ سورت شعبان 5 ھ میں غزوہ بنی المصطلق سے واپسی پر راستہ میں یا مدینہ پہنچنے کے بعد نازل ہوئی تھی۔ اس سورت کی تفسیر سمجھنے کے لئے مذکور بالا اجمال کی تھوڑی سی تفصیل جان لینا ضروری ہے، جسے امام بخاری، ابن اسحاق اور ابن جریر کی روایات کی مدد سے یہاں لکھا جا رہا ہے۔ ہجرت نبوی سے پہلے اوس و خزرج کے قبائل اپنی طویل خانہ جنگیوں سے تنگ آ کر بالآخر اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ قبیلہ خزرج کے مشہور سردار عبداللہ بن ابی بن سلول کو اپنا بادشاہ بنا لیں اور اس کی قیادت وسیادت میں سب مل کر پرسکون زندگی گذاریں، لیکن جب مسلمانان مدینہ نے ہجرت سے پہلے مکہ جا کر نبی کریم (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کرلی جسے تاریخ بیعت عقبہ کے نام سے جانتی ہے اور جس کے بعد انہوں نے آپ (ﷺ) کو مدینہ آجانے کی دعوت دے دی اور آپ مدینہ تشریف لے آئے، اور تمام انصار مدینہ آپ کے گرد جمع ہوگئے اور عبداللہ بن ابی کا خواب ادھورا رہ گیا تو اس کے دل میں آپ (ﷺ) اور اسلام کے خلاف عداوت بیٹھ گئی اسی لئے اگرچہ اس نے حالات کے تقاضےکے مطابق بظاہر اسلام کو قبول کرلیا لیکن در پردہ یہود اور کفار کے ساتھ مل کر بنی کریم (ﷺ) اور اسلام کے خلاف سازش کرتا رہا جنگ بدر کے بعد جب یہود بنی قینقاع کی صریح بدعہدی پر آپ (ﷺ) نے ان پر چڑھائی کردی تو یہ شخص ان کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑا ہوا، جنگ احد کے موقع پر بھی اس نے صریح غداری کی، اور عین وقت پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر میدان جنگ سے واپس آگیا، 4 ھ میں جب نبی کریم (ﷺ) نے یہود بنی نضیر پر چڑھائی کی اور ان کے علاقے کا محاصرہ کرلیا تو اس نے ان یہودیوں کو پیغام بھیجا کہ تم ڈٹے رہو، ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اگر مدینہ سے نکل جانے کی نوبت آئے گی تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے۔ ان واقعات کے بعد عام مسلمانان مدینہ کو اس کے منافق ہونے کا یقین ہوگیا تھا لیکن حالات کا تقاضا یہی تھا کہ اسے چھیڑا نہ جائے، تاکہ نبی کریم (ﷺ) اور صحابہ کرام داخلی دشمنوں کے ساتھ نہ الجھ جائیں اور خارجی دشمنوں کو مدینہ پر چڑھ دوڑنے کا موقع نہ مل جائے۔ شعبان 5 ھ میں جب غزو نبی المصطلق واقع ہواتو عبد اللہ بن ابی بھی منافقین کی ایک جماعت کے ساتھ مجبوراً شریک ر ہا تھا۔ نبی کریم (ﷺ) نے اس غزوہ میں کافروں پر فتحیابی کے بعد ” المریسیع“ نامی کنواں کے پاس پڑاؤ ڈال رکھا تھا، عمر بن خطاب (رض) کے خادم جہجاہ غفاری اور سنان جہنی حلیف بنی عوف بن الخزرج کے درمیان جھگڑا ہوگیا اور بات بڑھ گئی، جہنی نے انصار کو پکارا اور ججاہ نے مہاجرین کو۔ عبداللہ بن ابی ناراض ہوا اور موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، انصار اور منافقین سے کہنے لگا کہ یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کیا ہوا ہے تم نے اپنے ملک میں ان لوگوں کو جگہ دی ان پر اپنے مال تقسیم کئے، یہاں تک کہ اب یہ پھل پھول کر خود ہمارے ہی حریف بن گئے ہماری اور قریش کے ان کنگالوں کی حالت پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرو تاکہ تجھی کو پھاڑ کھائے تم لوگ ان سے ہاتھ روک لو یعنی ان پر خرچ کرنا بند کر دو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں، اللہ کی قسم ! مدینہ واپس پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو نکال دے گا۔ زید بن ارقم صحابی جو ایک کم عمر لڑکے تھے، انہوں نے یہ ساری باتیں سن لی تھی، رسول اللہ (ﷺ) کے پاس جا کر من و عن نقل کردیا، عمر بن خطاب (رض) وہاں موجودتھے، انہوں نے آپ (ﷺ) سے کہا کہ آپ عباد بن بشر کو حکم دیجیے کہ وہ عبداللہ بن ابی کو قتل کردیں، آپ (ﷺ) نے فرمایا :” عمر، ایسا نہیں کرنا چاہتا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد (ﷺ) اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتا ہے“ عبداللہ بن ابی کو جب معلوم ہوا کہ نبی کریم (ﷺ) کو اس کی فتنہ انگیزیوں کا پتہ چل گیا ہے تو دوڑا ہوا آپ کے پاس آیا اور سراسر جھوٹ بولا کہ اس نے یہ بات نہیں کہی ہے۔ اس حادثہ کے بعد رسول اللہ (ﷺ) وہاں سے فوراً روانہ ہوگئے، راستہ میں آپ نے اسید بن حضیر (رض) کو جب یہ بات بتائی، تو انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! اگر آپ چاہیں گے تو اسے مدینہ سے نکال دیجیے گا اللہ کی قسم ! وہ ذلیل ہے اور آپ عزت والے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ بات انصار میں پھیل گئی اور ان میں عبداللہ بن ابی کے خلاف سخت غصہ پیدا ہوگیا چنانچہ جب یہ قافلہ مدینہ میں داخل ہونے لگا تو عبداللہ بن ابی کے صاحبزادے جن کا نام عبداللہ تھا، تلوار سونت کرباپ کے آگے آگئے اور بولے ” تم نے کہا تھا کہ مدینہ واپس پہنچ کر عزت والا نکال دے گا، اب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ عزت تمہاری یا اللہ اور اس کے رسول کی اللہ کی قسم ! تم مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک رسول اللہ (ﷺ) تم کو اجازت نہ دے دیں“ رسول اللہ (ﷺ) کو جب خبر ہوئی تو آپ (ﷺ) نے صحابہ سے کہا، عبداللہ کو کہو، اپنے باپ کو گھر آنے دے، تب عبداللہ نے اپنے باپ کو گھر آنے دیا، ابن اسحاق کی روایت کے مطابق رسول اللہ (ﷺ) کے مدینہ پہنچنے کے بعد یہ سورت نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے منافقین اور ان کے سردار عبداللہ بن ابی بن سلول کے حالات بیان کئے اور ان کے نفاق کا پردہ فاش کیا۔ اب آیئے، ہم اس سورت کا مطالعہ کریں :