سورة آل عمران - آیت 179

مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اسی حال پر نہیں چھوڑے گا جب تک کہ وہ پاک اور ناپاک کو الگ الگ نہ کر دے اور نہ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کرلیتا ہے اس لیے تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو۔ اگر تم ایمان لاؤ اور تقو ٰی اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا اجر ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

119۔ جیسا کہ اوپر گذر چکا کہ غزوہ احد کے بعد منافقین تقریباً ظاہر ہوگئے اور اپنے دل کی باتیں اگلنے لگے، اور لوگ (کافر، مؤمن اور منافق) تین گروہوں میں بٹ گئے، اور مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ ان کے گھروں میں اور ان کے ساتھ بھی ان کے دشمن موجود ہیں، اس لیے احتیاط کرنے لگے، اور اپنے آستین کے سانپوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے لگے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں غزوہ احد کی اسی حکمت کو بیان کیا ہے کہ مؤمن و منافق کی تمیز کیے بغیر مسلمانوں کو چھوڑا نہیں جاسکتا تھا، اور غیب کی کسی کو خبر ہو نہیں سکتی تھی، اس لیے کہ غیب کی خبر تو اللہ صرف اپنے رسولوں کو دعوتی حالات کے تقاضے کے مطابق ہی دیتا ہے۔ لیکن غزوہ احد کے بعد کے حالات نے از خود منافقین کو مسلمانوں سے جدا کردیا۔