وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اور جنہوں نے انکار کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ جہنمی ہیں اور اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے
88: گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی پیدائش کی ابتدا کا ذکر کیا، پھر عام انسانوں کو اپنی بندگی کرنے کی دعوت دی، اس کے بعد اب ان آیتوں میں بطور خاص بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جارہی ہے، کیونکہ وہ مدینہ میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے سامنے رہتے تھے اور زیادہ حقدار تھے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لاتے، کیونکہ تورات کے ذریعہ وہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی صداقت کو خوب جان گئے تھے۔ اس آیت سے لے کر آیت 142 تک بنی اسرائیل کا ہی ذکر ہے، کہیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نرم لہجہ میں اسلام کی طرف بلایا ہے، ان پر اور ماضی میں ان کے آباء و اجداد پر اپنی نعمتوں کو ذکر کیا ہے، کہیں انہیں ڈرایا ہے، تو کہیں ان کے خلاف حجت قائم کر کے ان کی بد اعمالیوں پر انہیں ڈانٹ پلائی ہے، اور ان کے آباء واجداد کو جو سزائیں ملیں ان کا ذکر کیا ہے۔ اسرائیل، یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے، اس لیے بنی اسرائیل سے مراد اولاد، یعقوب ہے، اللہ تعالیٰ نے یعقوب (علیہ السلام) کا ذکر کر کے ان کی اولاد یعنی یہود کو نیکی کی رغبت دلانی چاہی ہے کہ اے اللہ کے نیک بندے یعقوب کے بیٹو، اپنے باپ کے مانند نیک بنو۔