وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ
کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے روبرو بات کرے اس کی بات یا تو وحی کے ذریعے ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ اللہ کے حکم سے جو کچھ ” اللہ“ چاہتا ہے وحی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بلند وبالا اور حکیم ہے۔
مفسرین اس آیت کا سبب نزول یہ بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی کریم (ﷺ) سے کہا اگر تم نبی ہو تو جس طرح موسیٰ نے اللہ سے بات کی تھی اور طور پر اس کی تجلی کا نظارہ کیا تھا، تم بھی اس سے بات کر کے ہمیں دکھاؤ، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ کسی انسان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اللہ اس سے ہم کلام ہو، البتہ اپنی پیغام رسانی کے لئے جسے اختیار کرلیتا ہے اس کے پاس اپنی وحی بھیجتا ہے یعنی اسے الہام کرتا ہے اور اپنی بات اس کے دل میں ڈال دیتا ہے، جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ موسیٰ کو تابوت میں بند کر کے سمندر میں ڈال دیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کو الہام کیا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کریں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے رسول سے کسی پردے کے اوٹ سے بات کرتا ہے، یعنی رسول اس کی بات تو سنتا ہے، لیکن اسے دیکھ نہیں پاتا جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہوا تھا اور تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی جبرئیل (علیہ السلام) کو اپنے رسول کے پاس بھیجتا ہے اور حکم الٰہی کے مطابق اپنے رب کا پیغام بذریعہ وحی رسول تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس امر سے بہت ہی بلند و بالا ہے کہ کوئی مخلوق اس کے سامنے آ کر اس سے ہم کلام ہو، اگر ایسا فرض کرلیا جائے تو تجلی الٰہی کی روشنی اسے خاکستر کر دے گی، اس لئے کہ ناممکن ہے کہ اس کے سامنے کؤی دوسرا ٹھہر جائے اور وہ بڑا ہی حکمت و دانائی والا ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ اپنا پیغام اپنے رسول تک کس طرح پہنچائے۔