سورة لقمان - آیت 32

وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جب ان لوگوں پر ایک موج سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنی اطاعت کو بالکل اسی کے لیے خالص کرلیتے ہیں، جب اللہ انہیں بچا کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کچھ عہد پر قائم رہتا ہے اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو وعدہ خلافی کرنے والا اور ناشکرا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(24) مشرکین کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جب وہ جہاز میں سوار ہو کر سمندر میں سفر کر رہے ہوتے ہیں اور عظیم پہاڑ جیسی موجیں انہیں ہر چہار جانب سے گھیر لیتی ہیں تو وہ اپنے تمام جھوٹے معبودوں کو بھول جاتے ہیں اور پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتے ہیں تاکہ وہ انہیں اس مصیبت سے نجات دے اور جب اللہ ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے بخیر و عافیت ساحل سمندر تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے بعض لوگ سطح سمندر پر اللہ سے کئے گئے عہد و پیمان پر قائم رہتے ہیں اور اس کے ساتھ غیروں کو شریک نہیں بناتے ہیں اور بعض اپنے سابق کفر و شرک کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہماری نشانیوں کا انکار بد عہد اور ناشکرے لوگ کرتے ہیں۔ (دیکھئے تفسیر شو کانی) حافظ ابن کثیر نے مجاہد کے حوالے سے ” مقتصد“ کی تفسیر کافر کی ہے۔ یعنی جب اللہ انہیں ساحل پر پہنچا دیتا ہے تو سطح سمندر پر کیا گیا عہد و پیمان بھول کر پھر کفر و شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔