سورة آل عمران - آیت 37

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

چنانچہ اس کے پروردگار نے اسے اچھی طرح قبول فرما لیا اور بہترین پرورش فرمائی اور اس کی کفالت زکریا (علیہ السلام) کو سونپی۔ جب کبھی زکریا (علیہ السلام) ان کے حجرے میں جاتے تو اس کے پاس رزق پاتے، وہ پوچھتے اے مریم! یہ رزق تمہارے پاس کہاں سے آیا؟ انہوں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

31۔ ام مریم نے بیٹے کی نیت کی تھی تاکہ بیت المقدس کی خوب خدمت کرے۔ جب بچی ہوئی تو انہیں ایک طرح کی مایوسی ہوئی چنانچہ اللہ نے ان کا دل رکھا اور ان کی نذر قبول کرلی، اور پھر وہ لڑکی ایسی ہوئی کہ صلاح و تقوی اور دینی مقاصد کے حصول میں ہزاروں لڑکوں پر سبقت کرگئی، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ نے ان کی نذر قبول کرلی، اور اس لڑکی کو ایسا شرف قبولیت حاصل ہوا کہ بہت سے اولیاء اللہ سے آگے بڑھ گئی، اور پھر اللہ نے ان کفالت زکریا کے ذمہ لگا دی، جو ان کے خالو تھے۔ دوسری آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے، ۔ جب وہ لوگ اپنے قلم (نہر میں) بطور قرعہ اندازی ڈال رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے۔ مریم علیہا السلام نے زکریا (علیہ السلام) سے علم نافع اور عمل صالح حاصل کیا، اور دینی ماحول اور فضا میں ان کی تربیت ہوتی رہی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب بھی زکریا (علیہ السلام) ان کے پاس جاتے تو موسم سرما کا پھل موسم گرما میں اور گرما کا سرما میں پاتے تھے۔ آیت میں اشارہ ہے کہ مریم علیہا السلام دن رات عبادت میں لگی رہتی تھیں، اور محراب سے صرف بشری تقاضوں کے لیے ہی نکلتی تھیں۔ فائدہ : آیت میں دلیل ہے کہ اللہ کے دوستوں کے ذریعہ کرامات صادر ہوتے ہیں۔ اس کی تصدیق خبیب بن عدی انصاری (رض) کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے، جنہیں مکہ مکرمہ میں کافروں نے شہید کردیا تھا، اور جن کے پاس قید کے زمانے میں انگور کے گچھے ملا کرتے تھے (دیکیھیے صحیح الباری کتاب الجہاد) لیکن اللہ کا دوست وہی ہوگا، جو پابند شریعت، قرآن وسنت کا متبع، اور بدعات و خرافات سے ہزاروں کوس دور ہوگا، اور جس کے بارے میں قرآن وسنت کے متبع علماء اور فضلاء اس بات کی گواہی دیں کہ وہ عقیدہ صحیحہ اور دین خالص کے ساتھ تمام شرائع اسلامیہ کا پابند ہے، مشرک، بدعتی، قرآن وسنت سے دور اور عمل صالح میں کوتاہ کبھی بھی اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا، اور ایسے لوگوں سے جن خرق عادت امور کا ظہور ہوتا ہے وہ جادو اور شیطانی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔