وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
ہم نے جو اپنے بندے پر اتارا ہے اگر اس میں تمہیں شک ہو تو تم اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے مدد گاروں کو بھی بلا لاؤ اگر تم سچے ہو
عقیدہ توحید کو ثابت کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی نبوت کی صداقت پر عقلی دلیل پیش کی ہے، اور کہا ہے کہ اے میرے رسول کی مخالفت کرنے والو، اس دعوت کو رد کرنے والو اور اسے جھوٹا بتانے والو، اگر تمہیں اس بات میں شبہ ہے کہ واقعی یہ قرآن ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے، تو جان لو کہ وہ تمہاری طرح ایک انسان ہے۔ تم اسے یوم پیدائش سے جانتے ہو کہ نہ وہ لکھتا ہے نہ پڑھتا ہے۔ وہ ایک کتاب لایا اور تمہیں خبر دی کہ یہ اللہ کی کتاب ہے، تو تم نے کہا کہ اس نے خود گھڑا ہے اور اللہ پر افترا پردازی کی ہے۔ اگر بات ویسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہو، تو اس کتاب جیسی ایک سورت لے آؤ اور تمہارے جتنے معاون و مددگار ہوں ان سب کی مدد حاصل کرلو، اور یہ تمہارے لیے آسان بھی ہے اس لیے کہ تم لوگ فصاحت و خطابت کے بادشاہ ہو، اور میرے رسول سے تمہاری دشمنی بھی بہت بڑی ہے۔ اور اگر تم نہیں لا سکتے (جیسا کہ تاریخ شاہد ہے کہ چودہ سو سال گذر گئے اور کوئی شخص اس چیلنج کو قبول نہ کرسکا) تو یہ کھلی نشانی اور واضح دلیل ہوگی اس امر کی کہ میرا رسول سچا ہے، اور وہ کتاب سچی ہے جو میں نے اس پر اتاری ہے، اور تمہارے عجز کا یہ اعتراف اس بات کا متقاضی ہے کہ تم اس کی اتباع کرو اور اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوگا اور یہ آگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ یہ آیت قرآن کریم اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دونوں کی صداقت پر دلیل ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ہدایت قبول کرنے کی توقع اسی سے کی جاتی ہے جو شبہ میں مبتلا ہو اور حق کو جاننا چاہتا ہو، لیکن وہ مخالف جو حق کو جاننے کے باوجود اسے چھوڑ چکا ہو اس سے قبول حق کی توقع نہیں کی جاتی۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے لفظ عبد کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی سب سے پہلی صفت یہی تھی، اسی لیے آپ نے اللہ کا حق عبودیت اس طرح ادا کیا کہ دوسرے سے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔۔