سورة البقرة - آیت 286

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، جو نیکی کرے وہ اسی کے لیے ہے اور جو برائی کرے اس کا بوجھ بھی اسی پر ہے۔ اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ کرنا۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو، ہم سے درگزر فرما اور ہمیں معاف فرما دے۔ اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کفار پر غلبہ عطا فرما

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

دوسری آیت میں اس بات کی خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو اتنا ہی مکلف کرتا ہے جتنے کی وہ طاقت رکھتا ہے، اور یہ کہ وہ اپنے قول و فعل کا ذمہ دار ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بندے کو اپنی جناب میں گریہ و زاری اور دعا کرنے کی تعلیم دی ہے، تاکہ جو تقصیر حاصل ہوئی ہے اسے اللہ معاف کردے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی یہ دعا قبول کرلی، جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ جب بندوں نے یہ دعا کی تو اللہ نے کہا کہ ہاں ! میں نے قبول کرلیا، ابن عباس (رض) سے بھی ایسا ہی مروی ہے (مسلم) (فائدہ) اس آیت سے یہ شرعی قاعدہ ماخوذ ہے کہ دین اسلام میں تمام اعمال کی بنیاد نرمی اور آسانی پر ہے۔