وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِينَ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا
” اے نبی ہم نے اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے۔ آپ کے لیے آپ کا رب رہنمائی اور مدد کے لیے کافی ہے۔“ (٣١)
13۔ کفار مکہ نبی کریم (ﷺ) کا مذاق اڑاتے تھے، اور قدم قدم پر ان کی دعوت کے آڑے آتے تھے۔ تو ایک انسان ہونے کی حیثیت سے آپ (ﷺ) کو تکلیف ہوتی تھی اور کبھی کبھار دل برداشتہ ہوجاتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ سے پہلے جتنے انبیاء آئے، مجرمین قوم میں سے کوئی نہ کوئی ان کا بڑا پکا دشمن ہوتا تھا، جو ان کی ایذا رسانی کے درپے ہوتے تھا، اور لوگوں کو اپنے کفر کی طرف بلاتا تھا، اس لیے آپ دل برداشتہ نہ ہوں، اور یہ یقین رکھئے کہ جو بھی اللہ کی کتاب پر ایمان لائے گا اور آپ کی تصدیق کرے گا، اسے اللہ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں ہدایت دے گا اور اس کی مدد فرمائے گا۔ سورۃ الانعام آیت 112 میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی بات کہی ہے﴿ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ﴾، ہم نے اسی طرح انسانوں اور جنوں کے شیاطین میں سے ہر نبی کا ایک دشمن بنایا تھا۔ ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کا دشمن ابوجہل تھا، اور موسیٰ کا دشمن قارون تھا، قارون موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا۔