ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ
جس کی ہم انہیں دھمکی دے رہے ہیں۔ اے نبی برائی کو بہترین طریقے سے ٹالنے کی کوشش کرو۔ آپ پر جو باتیں بناتے ہیں وہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہیں۔“ (٩٦)
30۔ اللہ تعالیٰ نے اہل قریش سے جس عذاب کا وعدہ کر رکھا تھا، اس کا وقت آنے تک نبی کریم (ﷺ)کو حکم دیا کہ مشرکین جو ان کا اور دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں اس پر صبر کریں، درگزر کریں اور جہاد کے حکم کا انتظار کریں، اسی لیے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت جہاد والی آیت کے ذریعے منسوخ ہوچکی ہے، بعض دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ کافروں کے بارے میں تو آیت جہاد کے ذریعہ اس کا حکم منسوخ ہوچکا ہے لیکن مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کے سلسلے میں اس کا حکم باقی ہے، یعنی یہ آیت مسلمانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ آپس میں عفو و درگزر سے کام لیں۔ آیت کے آخر میں کہا گیا ہے کہ مشرکین مکہ جو کچھ اللہ کے بارے میں کہتے ہیں اس کا کوئ شریک ہے، یا اس کا کوئی لڑکا ہے، یا وہ جو کچھ اس کے رسول کے بارے میں کہتے ہیں وہ جھوٹا ہے، یا قیامت اور بعث بعد الموت کی تکذیب کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ان ساری باتوں سے واقف ہے اور ان مشرکوں کو اس کا عذاب بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔