سورة البقرة - آیت 269

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

وہ جسے چاہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس شخص کو حکمت و دانائی عطا کی گئی اسے خیر کثیر عطا کردی گئی اور نصیحت تو صرف عقل مندہی قبول کرتے ہیں

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

366: صدقات و خیرات اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے اموال واجر و ثواب کا ذکر ہوچکا، تو اب ایک ایسی نعمت کا ذکر ہو رہا ہے جو ان سب سے افضل ہے اور وہ ہے حکمت، یعنی نفع بخش علوم، عقلِ راجح، فہمِ ثاقب اور اقوال و افعال میں صائب الرائے ہونا، اسی لیے اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جسے اللہ نے حکمت دے دی اسے خیر کثیر سے نواز دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک حکمت سے مراد فہم قرآن ہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے مراد فقہ اور قرآن ہے۔ امام مالک کے نزدیک حکمت فقہ فی الدین اور ایسی چیز کو کہتے ہیں جسے اللہ اپنے فضل و کرم سے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ اس آیت میں اشارہ ہے کہ جو شیطان کے وعدوں کے دھوکے میں نہیں آتا، اور اللہ کے وعدوں پر یقین رکھتا ہے، در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اسے حکمت جیسی دولت سے نواز دیا، نیز حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ کی راہ میں پاکیزہ مال خرچ کرتا رہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) روایت کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کہتے سنا ہے کہ حسد دو چیزوں میں جائز ہے، اللہ نے ایک آدمی کو مال دیا جسے وہ راہ حق میں خوب خرچ کرتا ہے، اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے حکمت دی ہے جس کے مطابق وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے، اور انہیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔ (مسند احمد، بخاری، مسلم)