إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا
” جب اس نے اپنے باپ سے کہا کہ اے ابا جان آپ کیوں ان چیزوں کی عبات کرتے ہیں ؟ جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کے کوئی کام آسکتی ہیں (٤٢)
ابراہیم نے اپنے باپ کو بت پرستی سے روکنے کے لیے غایت درجہ حسن ادب کے ساتھ کہا، اے میرے ابا ! آپ ایسے بت کی کیوں پوجا کرتے ہیں جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ آپ کو کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتا ہے، یعنی عبادت تو بہت بڑی تعظیم ہے، یہ بے جان اصنام تو اس لائق بھی نہیں کہ کوئی صاحب عقل انسان انہیں کوئی حیثیت دے، پھر آپ کیوں ان کی عبادت کرتے ہیں؟ اس آیت میں اور ذیل میں آنے والی تین آیتوں میں یہ بات قابل غور ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کو ہر نصیحت پیش کرنے سے پہلے (اے میرے ابا) کہا ہے، اس سے مقصود غایت درجہ کی نرمی اور محبت کا اظہار کر کے ان کے دل کو اپنی طرف مائل کرنا تھا، اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنا تھا کہ بیٹے کو بہرحال اپنے باپ کا احترام کرنا ہے۔