وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
اے نبی انہیں اس دن سے ڈراؤ۔ جب ان کے اعمال کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس حالت میں جب کہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے اور اس دن پچھتاوے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ (٣٩)
(21) نبی کریم کو خطاب کر کے کہا جارہا ہے کہ آپ لوگوں کو اس دن سے ڈرایئے جس دن سب لوگ حسرت کر ہے ہوں گے، گناہ گار اپنے گناہوں کو یاد کر کے اور نیک آدمی یہ سوچ کر کہ اس نے اور زیادہ نیک کام کیوں نہیں کیے تھے، اس دن تمام امور کا فیصلہ ہوجائے گا حساب ہوچکے گا، نامہ ہائے اعمال لپیٹ کر رکھ دیئے جائیں گے، اہل جنت جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں بھیج دیئے جائیں گے، لیکن آج حال یہ ہے کہ لوگوں پر شدید غفلت طاری ہے آخرت میں ان کا انجام کیا ہوگا اس کی فکر ہی نہیں بلکہ اکثر و بیشتر لوگ تو آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتے ہیں۔ بخاری و مسلم اور دوسرے محدثین نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا جو سفید و سیاہ رنگ کے مینڈھے کے مانند ہوگی، اسے جنت و جہنم کے درمیان کھڑا کردیا جائے گا، پھر کہا جائے گا، اے اہل جنت ! کیا تم لوگ اسے پہچانتے ہو؟ تو وہ لوگ گردن اٹھا کر دیکھیں گے، پھر کہیں گے ہاں یہ موت ہے، اور اسے تمام جنتی دیکھیں گے پھر پکارا جائے گا، اے اہل جہنم کیا تم لوگ اسے پہنچاتے ہو؟ تو وہ لوگ گردن اٹھا کر دیکھیں گے پھر کہیں گے ہاں یہ موت اور اسے تمام جہنمی دیکھیں گے، پھر حکم دیا جائے گا تو اسے ذبح کردیا جائے گا، اور کہا جائے گا اے اہل جنت ! ہمیشہ کے لیے یہاں رہو، اب تمہیں موت نہیں آئے گی، اور اے اہل جہنم ! ہمیشہ کے لیے یہاں رہو، اب تمہیں موت نہیں آئے گی، پھر آپ نے یہ آیت ﴿وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ﴾ آخر تک پڑھی اور ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ دنیا والے غفلت میں ہیں۔