يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں‘ فرما دیجئے ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ تم سے یہ بھی دریافت کرتے ہیں کیا کچھ خرچ کریں ؟ تو آپ فرما دیں اپنی ضرورت سے زائد چیز خرچ کرو۔ اللہ تعالیٰ اس طرح تمہارے لیے اپنے احکام صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم سوچ سمجھ سکو
307: شراب کی حرمت کے بارے میں سب سے پہلے یہی آیت نازل ہوئی، اس کے بعد سورۃ نساء کی مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی: ، یعنی اے ایمان والو ! تم جب نشہ کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ، (النساء :43۔) اور سب سے آخر میں سورۃ مائدہ کی آیت نازل ہوئی۔ ۔ اے ایمان والو، شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر، یہ سب گندی باتیں شیطان کا کام ہے، ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح پا سکو، شیطان تو چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ تمہارے آپس میں عداوت اور بغض پیدا کردے، اور اللہ کی یاد اور نماز سے تم کو باز رکھے، تو اب کیا تم شراب پینے سے رک جاؤ گے۔( المائدہ :90-91۔) اس کے بعد حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے کہا کہ اے اللہ ہم رک گئے، ہم رک گئے۔ دور جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں لوگ شراب پیتے تھے،، اس لیے جب اس کا استعمال حرام کردیا گیا تو اس کے بعض ظاہری منافع کے پیش نظر، کچھ لوگوں کے ذہنوں میں ایک طرح کا اشکال باقی رہ گیا، اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے سوال کیا کہ کیا واقعی شراب حرام کردی گئی ہے؟ اسی طرح لوگ جوا بھی کھیلا کرتے تھے اور اس کے بارے میں بھی رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے سوال کیا تو اللہ نے فرمایا کہ لوگ آپ سے شراب اور جوا کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ اور کچھ ظاہری منافع بھی ہیں، لیکن ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ شراب انسان کے عقل پر اثر انداز ہوتی ہے، جو اس کے جسم میں سب سے قیمتی متاع ہے، اور جنگ و جدال، گالی گلوچ، بہتان و زُور اور ترک نماز و ترک اعمال صالحہ کا سبب بنتی ہے، اور جوا محتاجی، دشمنی اور بغض و حسد کا سبب ہوتا ہے۔ لوگوں نے شراب اور جوا کے منافع کے بارے میں لکھا ہے کہ شراب کی لوگ تجارت کرتے ہیں اور اس کے استعمال سے نشاط و طرب حاصل ہوتا ہے اور معدہ کی اصلاح ہوتی ہے اور جوا سے فقیروں کو نفع پہنچتا ہے۔ لیکن فساد عقل کے بعد کسی ظاہری نفع کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی، اس لیے کہ عقل کے ذریعہ ہی آدمی ایمان و کفر اور خیر و شر میں تمیز کرتا ہے۔ علمائے کرام اور محققین نے اس کے علاوہ بھی شراب کے بہت سے نقصانات بتائے ہیں، مثال کے طور پر اس سے پیاس نہیں بجھتی، بچوں کی ذہنی اور جسمانی ترقی رک جاتی ہے، قوت ارادی کمزور ہوجاتی ہے، ٹی بی کی بیماری ہوتی ہے، دل اور خون کی نالیوں پر اثر انداز ہوتی ہے، اور بھی بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہے جن کا ذکر شراب سے متعلق لکھی گئی کتابوں میں آیا ہے اسی طرح جوا انسان کو محتاجی تک پہنچا دیتا ہے اس کی وجہ سے ایسی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں جو قتل و غارت گری اور ایک دوسرے کی عورتوں کی عصمت دری کا سبب بنتی ہیں، والعیاذ باللہ۔ 308: بعض صحابہ کرام نے زکاۃ فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پوچھا کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کا کتنا حصہ خرچ کریں، تو اللہ نے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اہل وعیال پر خرچ کرنے کے بعد جو بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں، اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ ہی اپنی آیتیں کھول کھول کر تم لوگوں کے لیے بیان کردیتا ہے تاکہ تم لوگ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی حقیقت کے بارے میں غور و فکر کرتے رہو۔ صحیحین میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے مروی ہے کہ بہترین صدقہ وہ ہے جو اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد ہو، اور ابتدا اس آدمی سے کرو، جس کی کفالت تمہارے ذمہ ہو۔ فائدہ : ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ حکم فرضیت زکاۃ والی آیت کے ذریعہ منسوخ ہوگیا ہے، اور عطاء خراسانی اور سدی وغیرہ کا خیال ہے کہ آیت زکاۃ کے ذریعہ اس حکم کی تفصیل بیان کردی گئی ہے کہ آدمی اپنے مال میں سے کیا خرچ کرے اور کن لوگوں پر خرچ کرے۔