سورة الكهف - آیت 45

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ فَأَصْبَحَ هَشِيمًا تَذْرُوهُ الرِّيَاحُ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ان کے لیے دنیا کی زندگی کی مثال بیان کیجیے، پانی جسے ہم نے آسمان سے اتارا اس کے ساتھ زمین کی انگوری خوب مل جل گئی پھر وہ چور، چورہو گئی، جسے ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔“ (٤٥) ”

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(22) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دنیا اور اس کی نعمتوں کی بے ثباتی کو مثال سے واضح کیا ہے کہ دنیا اپنی خوش رنگی اور زوال پذیر ہونے میں بارش کے اس پانی کے مانند ہے جسے اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل کرتا ہے اور جس کی وجہ سے زمین کے پودے لہلہا اٹھتے ہیں اور کثرت شادابی سے ایک دوسرے میں گتھ جاتے ہیں، پھر کچھ ہی دنوں کے بعد وہ پودے خشک ہو کر اور ٹوٹ پھوٹ کر بھس بن جاتے ہیں جنہیں ہوائیں ہر چہار جانب اڑائے لیے پھرتی ہیں، دنیا اور اس کی پرستش کرنے والوں کی یہی مثال ہے کہ انہیں یہاں جو بھی مقام و جاہ حاصل ہوتا ہے اس پودے کے مانند ہے جو لہلہا کر اچانک خشک ہوجاتا ہے اور بالاخر بھس بن جاتا ہے چونکہ دنیا کی بے ثباتی اس مثال سے بہت زیادہ واضح ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسے کئی مقام پر بیان کیا ہے۔ سورۃ یونس آیت (٢٤) میں فرمایا ہے : بیشک دنیاوی زندگی کی مثال اس پانی کی ہے جسے ہم آسمان سے بھیجتے ہیں جو زمین کے ان پودوں کے ساتھ مل جاتا ہے جنہیں لوگ اور چوپائے کھاتے ہیں۔ اور سورۃ الزمر آیت (٢١) میں فرمایا ہے : کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا ہے پھر اسی کے ذریعہ مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا ہے۔