يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا
” جس دن ہم لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے پھر جسے اس کا اعمالنامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا گیا یہ لوگ اپنا اعمالنامہ پڑھیں گے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے دھاگے برابر بھی ظلم نہ ہوگا۔“ (٧١)
(42) قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیے جانے اور جزا و سزا کے عقیدہ کو انسانوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) سے فرمایا کہ آپ اس دن کو یاد کیجیے جب ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں کے نام کے ساتھ پکاریں گے۔ مفسرین نے امام کے کئی معنی بیان کیے ہیں۔ بعض نے اس سے مراد نبی لیا ہے، بعض نے ہر زمانے کا دینی پیشوا، بعض نے وہ کتاب الہی جو ہر قوم کے لیے نازل ہوئی تھی، بعض نے اس سے دین مراد لیا ہے۔ ابن عباس، حسن، قتادہ اور ضحاک وغیرہم نے اس سے مراد ہر آدمی کا نامہ اعمال لیا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ اسی کی تائید سورۃ الانشقاق کی آیت (7) سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور سورۃ یسین آیت (12) میں فرمایا ہے : اور سورۃ الجاثیہ آیت (28) میں فرمایا ہے : ہر ایک کو اس کے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اصحاب الحدیث کے لیے بہت بڑا شرف بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن جب سارے انسان اپنے اپنے اماموں اور پیشواؤں کے ناموں سے پکارے جائیں گے تو اصحاب حدیث نبی کریم (ﷺ) کے نام سے پکارے جائیں گے اس لیے کہ ان کے امام اور پیشوا وہی ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اسے پڑھیں گے اور اس میں اپنے اعمال صالحۃ کو دیکھ کر نہایت خوش ہوں گے، اور ان کے اجر و ثواب میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی، یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جیسا کہ سورۃ مریم آیت (60) میں آیا ہے : کہ عدل و انصاف والے اللہ کی جانب سے ان پر قطعی ظلم نہیں ہوگا۔