وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُم بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِم بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا
اور ان میں سے جس کو اپنی آواز کے ساتھ بہکا سکے بہکا اور اپنے سوار اور اپنے پیادے ان پر چڑھا لے اور اموال اور اولاد میں ان کا حصہ دار بن اور ان سے وعدے کر اور شیطان دھوکا دینے کے سوا ان سے کوئی وعدہ نہیں کرتا۔“ (٦٤) ”
تو اب ان میں سے جسے آواز دے کر اپنی پیروی پر ابھار سکتے ہو ابھارو اور انہیں دھوکہ دو، (بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد لہو و لعب اور غنا اور موسیقی ہے) اور انہیں اپنا پیرو کار بنانے کے لیے تمام حربے اور تمام ذرائع استعمال کرو، مکر و فریب کی جتنی صورتیں ہوسکتی ہیں سب کو اختیار کرو، اور ان کے مال و دولت اور اولاد میں شریک بن جاؤ، بایں طور کہ وہ حرام ذرائع سے دولت حاصل کریں، غصب کریں، چوری کریں، سود کھائیں اور حرام کاموں پر خرچ کریں، جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑیں اور ناجائز طریقوں سے اولاد حاصل کریں۔ عبداللات اور عبدالعزی وغیرہ ان کے نام رکھیں، صلاح و تقوی کے مطابق ان کی تربیت نہ کریں اور انہیں ملحد، زندیق اور کافر بنائیں اور ان سے وعدہ کرو کہ وہ دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے یا یہ کہ ان کا انجام ہمیشہ اچھا ہوگا اور ہر دم غلبہ انہی کو ملے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان کا وعدہ ہمیشہ فریب پر مبنی ہوتا ہے،