وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
حج اور عمرے کو اللہ تعالیٰ کے لیے پورا کرو‘ ہاں اگر تم روک لیے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو اسے کرڈالو اور اپنے سر نہ منڈواؤ جب تک قربانی قربان گاہ تک نہ پہنچ جائے۔ البتہ تم میں سے جو بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (جس کی وجہ سے سر منڈوالے) تو اس پر فدیہ ہے۔ روزے رکھے، خواہ صدقہ دے، خواہ قربانی کرے پس جب امن میں ہوجاؤ تو جو شخص حج کے ساتھ عمرہ کا فائدہ اٹھائے پس اسے جو قربانی میسر ہو اسے کر ڈالے جسے اور طاقت نہ ہو وہ تین روزے حج کے دنوں میں اور سات واپسی میں رکھے یہ پورے دس ہوگئے۔ یہ حکم ان کے لیے ہے جو مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں۔ لوگو اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے
275: روزہ اور جہاد کے بعد اب احکام حج کا بیان شروع ہوا، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب حج اور عمرہ میں سے کسی کی ابتدا کرو تو تمام شرائط و اعمال کے ساتھ اسے پورا کرو، اور للہ اس لیے کہا کہ مشرکینِ مکہ حج و عمرہ کے بعض اعمال کے ذریعہ اپنے بتوں کا تقرب حاصل کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کہا کہ حج و عمرہ کے تمام اعمال صرف اللہ کی رضا کے لیے ادا ہونے چاہئیں۔ 276: اگر حج یا عمرہ کی راہ میں کوئی مانع پیش آجائے جیسے کوئی دشمن راستہ روک دے، یا کوئی مرض لاحق ہوجائے، یا راستہ بھٹک جائے تو محرم کو جو جانور میسر ہوگا، (اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ یا ایک بکری) ذبح کرے گا، اور بال منڈا کر حلال ہوجائے گا، جیسا کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور صحابہ کرام نے سن 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع سے کیا تھا، کہ حدیبیہ ہی میں اپنی اپنی قربانیاں ذبح کیں، اور بال منڈا کر حلال ہوگئے اور پھر سن 7 ہجری میں اس عمرہ کی قضا کی۔ 277: اگر حج کرنے والا ہدی کا جانور اپنے ساتھ لے جا رہا ہے تو حالت امن میں ہدی کی جگہ حرم ہے۔ جب تک ہدی کا جانور حرم نہ پہنچ جائے اور حج کرنے والا حج و عمرہ کے اعمال سے فارغ نہ ہوجائے، اس کے لیے سر کا بال منڈانا جائز نہیں، اور افضل یہ ہے کہ دس تاریخ کو کنکری مارنے کے بعد پہلے قربانی کرے، پھر بال منڈوائے۔ 278: یہ آیت کعب بن عجرہ انصاری کے بارے میں اتری تھی، ان کے بال گھنے اور لمبے تھے۔ عمرۃ الحدیبیہ کے موقع پر ان کے سر میں اتنی جوئیں ہوگئیں کہ ان کے چہرے پر گرنے لگیں، تو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے انہیں حکم دیا کہ بال منڈا لو، اور ایک بکری ذبح کردو، یا چھ مسکین کو کھانا کھلا دو، یا تین روزے رکھ لو، اسی موقع سے یہ آیت نازل ہوئی (صحیحین) 279: اگر محرم کو راستہ میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے اور حرم پہنچ جائے، اور عمرہ کر کے حلال ہوجائے، پھر آٹھ تاریخ کو یا اس سے پہلے حج کا احرام باندھے، تو اس پر قربانی واجب ہے، اسے حج تمتع کہتے ہیں۔ اور یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ حج تمتع افضل ہے، اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حجۃ الوداع میں صاف طور پر کہہ دیا کہ (اب جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے اگر پہلے معلوم ہوجاتی تو ہدی کا جانور لے کر نہ آتا اور پنے حج کو حج تمتع بنا دیتا (صحیحین)۔ اگر حاجی قارن ہے (یعنی عمرہ کر کے احرام کی حالت میں باقی رہے یہاں تک کہ دس تاریخ کے اعمال سے فارغ ہوجائے) تو بھی قربانی واجب ہے، اس لیے کہ اس نے بھی حج و عمرہ دونوں ایک ساتھ کیا۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور صحابہ کرام جنہوں نے حجۃ الوداع میں قران کی نیت کی تھی، سب نے قربانی کی، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے امہات المؤمنین کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی، حج افراد کرنے والے پر قربانی واجب نہیں۔ 280: اگر متمتع کے پاس قربانی کا جانور نہیں ہے تو تین روزے حج کے زمانے میں، اور سات روزے اپنے گھر واپس جانے کے بعد رکھے گا، حج کے زمانے میں روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ عمرہ کا احرام باندھتے وقت اگر اسے معلوم ہے کہ وہ قربانی کا جانور خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، تو اس کے بعد سے تین روزے رکھ لے، اور اس لیے کہا تاکہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسے اختیار ہے کہ یا تو تین روزے حج کے زمانے میں رکھ لے، یا سات گھر پہنچنے کے بعد۔ 281: تمتع یا قران کی قربانی ان حاجیوں پر واجب ہے جو اہل حرم میں سے نہ ہوں، کیونکہ اہل حرم کے لیے حج تمتع نہیں ہے، اہل حرم سے مراد مکہ میں رہنے والے اور وہ لوگ ہیں جو حرم سے اتنی مسافت پر رہتے ہوں جس پر سفر کا اطلاق نہ ہو۔