وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ
جب تک فتنہ مٹ کر اللہ کا دین غالب نہ آجائے ان سے لڑتے رہو۔ اگر وہ باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی جائز نہیں
اور ان سے قتال کرو، تاکہ حرم سے فتنہ و فساد کا صفایا ہوجائے اور تاکہ وہاں اللہ کے علاوہ کسی کی پرستش نہ ہو، نہ اس کے علاوہ کسی سے ڈرا جائے، نہ کوئی شخص ابتلاء و آزمائش میں مبتلا کیا جائے، اور نہ دین حق پر چلنے کی وجہ سے اسے ستایا جائے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بحیثیت فاتح مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور جن مشرکین مکہ نے اسلام قبول نہیں کیا انہیں معاہدہ کی مدت ختم ہوجانے کے بعد مکہ سے نکل جانا پڑا، اور مسجد حرام بتوں اور مشرکوں سے پاک ہوگیا، اور مسلمان وہاں باعزت زندگی گزارنے لگے۔