سورة البقرة - آیت 186

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جب میرے بندے میرے بارے میں تم سے پوچھیں تو انہیں بتا دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں۔ ہر پکار نے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں۔ اس لیے لوگوں کو بھی چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

266: یہ آیت گذشتہ آیت کے مضمون کی تکمیل کرتی ہے۔ گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ رمضان کے روزے پورے کرلینے کے بعد تکبیر کہو اور اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے رمضان جیسا بابرکت مہینہ عطا کیا اور اس میں روزے رکھنے کی توفیق بخشی اور اب اس آیت میں اللہ نے خبر دی کہ وہ اللہ جسے وہ یاد کریں گے اور جس کا شکر ادا کریں گے، ان سے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے آیت وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِĬ۔ کہ ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔ (ق : 16 ) علمائے تفسیر نے یہ بھی کہا ہے کہ روزوں کے احکام کے درمیان دعا کے ذکر سے مقصود اس طرح اشارہ ہے کہ رمضان میں دعا کی بڑی اہمیت ہے۔ مسند طیالسی میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو افطار کے وقت اپنے تمام بال بچوں کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے، اس لیے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ روزہ دار کے افطار کے وقت کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ایک اور حدیث ہے کہ تین آدمی کی دعا رد نہیں کی جاتی : امام عادل کی، روزہ دار کی اور مظلوم کی (مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے روایت کی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آیا اور پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہمارا رب قریب ہے تاکہ ہم اس سے سرگوشی کریں، یا دور ہے تاکہ اسے پکاریں؟ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خاموش رہے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ اپنے بندوں سے قریب ہے، اس لیے کہ وہ (رقیب) ہے، شہید ہے، ظاہر و پوشیدہ کو جانتا ہے، دلوں کے بھید جانتا ہے، اس لیے وہ اپنے پکارنے والوں سے قریب ہے، اور ان کی پکار کو سنتا ہے جو بندہ اپنے رب کو حضور قلب کے ساتھ پکارتا ہے، اور کوئی چیز دعا کی قبولیت سے مانع نہیں ہوتی، تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے، خاص طور سے اگر قبولیت دعا کے دینی اسباب بھی موجود ہوں یعنی بندہ اللہ کے اوامر و نواہی کا پابند ہو اور اللہ تعالیٰ پر اس کا ایمانِ کامل اور یقین محکم ہو۔ فوائد : 1۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سجدے میں دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ تمہارے سجدے کی دعا قبول ہوجائے۔ مسلم۔ آپ خود بھی سجدے میں کثرت سے دعا کرتے تھے۔ 2۔ قبولیت دعا کی چھ شرطیں ہیں، اگر وہ پوری نہ ہوں تو دعا قبول نہیں ہوگی۔ الف۔، دعا اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی کے واسطے سے کی جائے۔ ب۔ نیت میں اخلاص ہو۔ ج۔ دعا کرنے والا اپنی مسکنت و محتاجی کا اظہار کرے۔ کسی گناہ کی دعا نہ کرے۔ کسی ایسی چیز کے لیے دعا نہ کرے جس کے ذریعے اللہ کی نافرمانی پر مدد لینی چاہے۔ اسے یقین ہو کہ اللہ نے اگر اسے کسی دنیاوی فائدہ سے محروم رکھا ہے، تو یہ بھی اللہ کی نعمت ہے، بالکل اس نعمت کی مانند جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ 3۔ مصیبتوں کو ٹالنے کا سب سے قوی ذریعہ دعا ہے۔ لیکن کبھی وہ اپنا اثر نہیں دکھا پاتی، یا تو اس لیے کہ دعا کسی ایسی چیز کے لیے ہوتی ہے جو اللہ کو ناپسند ہے، یا دعا کے وقت حضور قلب معدوم ہوتا ہے، یا قبولیت دعا کے کسی مانع کے موجود ہونے کی وجہ سے، مثال کے طور پر، دعا کرنے والے کی روزی حرام ہو، یا وہ ظالم ہو، یا اس کے دل پر گناہوں کا دبیز پردہ پڑا ہو، یا وہ غفلت اور لہو ولعب میں مبتلا ہو۔ 4۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ دعا، مومن کا ہتھیار، اور دین کا ستون ہے اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ مستدرک الحاکم۔ دعا کا معاملہ کسی مصیبت کے ساتھ تین طرح کا ہوتا ہے۔ یا تو دعا مصیبت سے زیادہ قوی ہوتی ہے تو اسے دور کردیتی ہے، یا کمزور ہوتی ہے، تو مصیبت غالب آجاتی ہے اور بندے کو لاحق ہوجاتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار دعا کمزور ہونے کے باوجود مصیبت کو ہلکی کردیتی ہے۔ یا دونوں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتی رہتی ہیں۔ اور ایک دوسرے کو اثر کرنے سے روکتی ہیں 5۔ دعا بار بار اور خوب الحاح کے ساتھ کرنی چاہیے۔ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ دعا کرنے سے نہ تھکو، اس لیے کہ جو آدمی دعا کرتا رہتا ہے وہ ہلاک نہیں ہوتا (مستدرک الحاکم)۔ 6۔ دعا کی قبولیت میں عجلت کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ ری اللہ عنہ کی حدیث ہے، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا ہے کہ آدمی اگر قبولیت میں جلدی نہ کرے تو دعا قبول ہوتی ہے۔ 7۔ دعا کی قبولیت کے چھ مشہور اوقات ہیں۔ آخری تہائی رات میں، اذان کے وقت، اذان اور اقامت کے درمیان، فرض نمازوں کے بعد، جمعہ کے دن امام کے ممبر پر جانے کے بعد سے نماز ختم ہونے تک، جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد آخری ساعت۔ وباللہ التوفیق۔