لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
صرف نیکی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے ہی میں نہیں۔ حقیقتاً نیکی یہ ہے جو اللہ تعالیٰ، قیامت کے دن، فرشتوں، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والے۔ جو لوگ مال کے محبوب ہونے کے باوجود رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دیں۔ غلاموں کو آزاد کریں نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کریں، اپنے وعدے پورے کریں۔ تنگدستی اور لڑائی کے وقت صبر کریں۔ یہی لوگ سچے اور یہی پرہیزگار ہیں
255: مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت یہود و نصاری کی تردید میں اس وقت نازل ہوئی تھی، جب انہوں نے تحویل قبلہ کے بعد اسلام اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں مختلف قسم کی فتنہ انگیز باتیں کرنی شروع کردی تھیں۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ کوئی بعید بات نہیں کہ تحویل قبلہ کے بعد بعض مسلمانوں نے اپنی نہایت خوشی کا اظہار کیا ہو، اور اس بارے میں ان کا تشدد اس حد تک پہنچ گیا ہو کہ کعبہ کا قبلہ بننا ان کی نظر میں دین کی سب سے بڑی غرض و غایت ٹھہر گیا ہو، تو یہ آیت اتری کہ نیکی یہ نہیں کہ آدمی مشرق یا مغرب کی طرف اپنا رخ پھیرلے، بلکہ نیک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے (جو ہر صفت کامل کے ساتھ متصف اور ہر نقص سے پاک ہے) اور یوم آخرت اور اس کی ان تمام تفصیلات پر ایمان لائے جن کی خبر اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے، اور فرشتوں پر ان تمام تفصیلات کے ساتھ ایمان لائے جن کی اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی ہے، اور تمام کتابوں پر ایمان لائے جنہیں اللہ نے اپنے رسولوں پر نازل کی اور خاص طور پر اللہ کی عظیم ترین کتاب قرآن کریم پر، اور تمام انبیائے کرام پر، اور خاص طور پر خاتم النبیین محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر، اسی طرح نیک وہ ہے جو اپنا عمدہ مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں مسافروں اور مانگنے والوں پر اور غلاموں کا آزاد کرنے پر خرچ کرے، اور جس نے نماز قائم کی اور زکاۃ ادا کی، اللہ اور بندوں سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کیا، اور جس نے تکلیف و مصیبت کے وقت، اور دشمنان اسلام سے جہاد کرتے ہوئے صبر و استقامت سے کام لیا۔ 256: یہی لوگ اپنے ایمان میں صادق ہیں، اس لیے کہ ان کے اقوال و افعال نے ان کے ایمانِ قلبی کی تصدیق کردی، اور انہوں نے ثابت کردیا کہ خوف و دہشت اور حالاتِ زمانہ انہیں نہیں بدل سکتے، اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جو کوئی ایمان کے بعد مذکورہ بالا اوصاف سے متصف نہیں ہوتا، وہ اپنے دعوی ایمان میں صادق نہیں ہوتا۔ اور یہی لوگ حقیقت معنوں میں متقی ہیں، اس لیے کہ انہوں نے محرمات و ممنوعات کو چھوڑ دیا، اور نیک کاموں کو اپنا شیوہ بنا لیا۔