سورة الرعد - آیت 7

وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جن لوگوں نے انکار کیا، کہتے ہیں اس کے رب کی طرف سے اس پر کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی ؟ آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک رہنما ہوتا ہے۔“ (٧)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(8) کفار مکہ کی آنکھوں پر کفر و عناد کی ایسی پٹی بندھی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت و خالقیت کی تمام نشانیاں دیکھنے کے باوجود ان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تھی اور ان نشانیوں سے انہیں کوئی ایمانی فائدہ نہیں پہنچتا تھا اور کہتے تھے اگر محمد (ﷺ) اللہ کا پیغامبر ہے تو موسیٰ اور عیسیٰ کی طرح نشانیاں کیوں نہیں پیش کرتا، یا ہم جن نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں کیوں نہیں لے آتا، مشرکین کبھی کہتے کہ اے محمد ! اگر تم اللہ کے نبی ہو تو صفا پہاڑی کو سونا بنا دو، یا پہاڑوں کو ہٹا کر ان کی جگہ نہریں جاری کردو، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) سے فرمایا کہ آپ کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے، کافروں کی مرضی کے مطابق نشانیاں پیش کرنا نہیں، اور یہ کام آپ نے بدرجہ اتم کیا اپنی پوری زندگی لگا دی اور کوئی کسر نہیں چھوڑی، اللہ تعالیٰ آپ کو امت اسلامیہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے ہر قوم کی رہنمائی کے لیے ایک نبی بھیجا، اور ان انبیاء کو حالات اور زمانے کے مطابق مختلف نشانیاں دیں جو ان کے نبی ہونے پر دلالت کرتی تھیں، نبی کریم (ﷺ) کو قرآن جیسا معجزہ عطا کیا، اس لیے کفار قریش کا یہ کہنا کہ موسیٰ و عیسیٰ جیسی نشانیاں لائیں یا ان کی مرضی کی نشانیاں پیش کریں، کفر و ضلالت پر ان کی ہٹ دھرمی تھی، بعض مفسرین نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ آپ کا کام تو صرف ڈرانا ہے، قوموں کو ہدایت دینا تو ہمارا کام ہے، ہم جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔