وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا ۖ وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
” اور وہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور ندیاں بنائیں اور اس نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے، وہ رات کو دن پر اوڑھا دیتا ہے، بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے ضرور بہت سی نشانیاں ہیں جو غوروفکر کرتے ہیں۔“ (٣)
(3) اپنی قدرت و خالقیت اور علم و حکمت کے آسمانی دلائل بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں انہی حقائق پر زمین اور اس پر پائی جانے والی اشیا کے ذریعہ استدلال کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے زمین کو طول و عرض میں اتنا پھیلا دیا ہے کہ آدمی کی نگاہ اس کی انتہا کو نہیں پاسکتی ہے، تاکہ انسانوں کے قدم اس پر ٹھہر سکیں اور حیوانات اس پر بآسانی چل پھر سکیں، اور زمین پر بڑے بڑے پہاڑ قائم کردیئے تاکہ زمین اپنی جگہ ثابت رہے، اور اس پر نہریں جاری کردیں جن میں مخلوق کے لیے گوناگوں فوائد ہیں، اور جتنے پھل زمین پر پائے جاتے ہیں، اللہ نے ان سب کی دو دو قسمیں بنائی ہیں، رنگوں یا مزا کے اعتبار سے یا حجم یا کیفیت کے اعتبار سے، ہر قسم میں الگ الگ فائدے ہوتے ہیں، اس طرح ہر قسم ایک مستقل نعمت ہوتی ہے، فرا ء کا قول ہے کہ اس سے مراد ہر پھل کا مذکر و مونث ہے۔ اللہ تعالیٰ دن کے بعد رات لاتا ہے، اور دن کی روشنی اور سفیدی کے بعد رات کی گھٹا ٹوپ تاریکی آجاتی ہے، اور جب رات لمبی ہوتی ہے تو سردی کا زمانہ آجاتا ہے، اور جب دن لمبا ہوتا ہے تو گرمی کا زمانہ آجاتا ہے، اور دن اور رات دونوں میں سے ایک کے معتدل ہونے سے موسم خزاں آجاتا ہے، اور دوسرے کے معتدل ہونے سے موسم بہار کی آمد ہونے لگتی ہے۔ بیشک زمین کی کشادگی اور اس پر پائی جانے والی مذکورہ بالا اشیا میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے کھلی نشانیاں ہیں کہ یقینا ان کا پیدا کرنے والا اللہ کی ذات ہے جو صاحب قدرت اور صاحب حکمت ہے اور جو اپنے بندوں کی جانب سے محبت و بندگی کا مستحق ہے۔ آیت کریمہ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جس ذات واحد نے اپنی مخلوق کے لیے ان گنت نعمتیں پیدا کی ہیں، اس کی ایک عظیم نعمت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کے لیے انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل کیں۔