إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا بدلنا‘ کشتیوں کا لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی چیزوں کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا‘ آسمان سے پانی اتار کر زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کردینا‘ اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلانا‘ ہواؤں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر بادلوں کے رخ بدلنے میں یقیناً عقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں
239: اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی اجمالی دلیل بیان کرنے کے بعد اس آیت میں تفصیلی دلائل کا ذکر فرمایا ہے، اور انسان کو دعوت فکر دی ہے کہ ذرا ان نشانیوں میں غور تو کرو، کیا یہ اللہ کے وجود اور اس کے قادر مطلق ہونے کے دلائل نہیں ہیں؟ آسمان کی بلندی، اس کی وسعت و پہنائی، اس میں شمس و قمر اور ستاروں کی دنیا، زمین کی پستی، اس کا ہموار ہونا، اس کے پہاڑ، اس کے سمندر، اس کی آبادیاں، اور گوناگوں نفع بخش چیزیں، لیل ونہار کی باضابطہ گردش، گرمی، سردی، موسم کا اعتدال، رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا، کشتیوں اور جہازوں کا سمندروں میں انواع و اقسام کے سامان لے کر چلنا، سمندروں اور ہواؤں کا اس کے لیے مسخر ہونا، آسمان سے بارش کا نزول، جس سے مردہ زمین میں جان آجاتی ہے، اور مختلف الانواع نباتات اور کھانے کی چیزوں کا پیدا ہونا، زمین میں مختلف قسم کے جانور اور بنی نوع انسان کے لیے ان کی تسخیر، ہواؤں کا چلنا۔ ٹھنڈی، گرم، جنوبی، شمالی، شرقی اور غربی ہواؤں کا تنوع، اور بادلوں کا وجود جو بارش کا پانی لے کر اللہ کے حکم سے دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچتے رہتے ہیں۔ یقیناً یہ ساری چیزیں اللہ کے وجود اور اس کی قدرت مطلقہ پر دلالت کرتی ہیں اور ہر صاحب عقل و خرد کے لیے اللہ پر ایمان لانے کے لیے یہ نشانیاں کافی ہیں۔