وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ
اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان لانے کے باوجود وہ شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔“ (١٠٦) ”
(92) اکثر و بیشتر انسانوں کا حال یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زبان سے تو اللہ کے وجود اور اس کے خالق و مالک ہونے کا اقرار کرتے ہیں، لیکن عمل کی زندگی میں مشرک ہوتے ہیں، اللہ کے بجائے غیروں کی پرستش کرتے ہیں، انسانوں کو اللہ کے بیٹے اور فرشتوں کو اس کی بیٹیاں کہتے ہیں، جو شرک اکبر ہے، اور جس کا شرک ہونا واضح اور جلی ہے، شرک کی ایک دوسری قسم شرک خفی ہے، جس میں اکثر لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔ حسن بصری اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ وہ منافق ہے جو لوگوں کے دکھلاوے کے لیے نیک کام کرتا ہے، وہ مشرک ہے اس لیے کہ اس نے عبادت میں اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنایا، وہ اگرچہ اللہ کی وحدانیت کا اعتقاد رکھتا ہے، لیکن اللہ کے لیے اپنی عبودیت میں مخلص نہیں ہوتا ہے، بلکہ حصول دنیا یا جاہ و منزلت کی خاطر نیک عمل کرتا ہے، یہی وہ شرک ہے جس کے بارے میں نبی کریم (ﷺ)نے فرمایا کہ اس امت میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی طور پر پایا جائے گا (صحیح ابن حبان) معلوم ہوا کہ جو نیک کام بھی لوگوں کے دکھلاوے کے لیے کیا جائے گا وہ شرک ہوگا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ شرک کی ایک قسم شرک خفی ہے، جس کا مرتکب عام طور پر اس کا احساس نہیں کرپاتا ہے۔ حذیفہ بن الیمان سے عروہ نے روایت کی ہے کہ وہ ایک مریض کے پاس گئے تو اس کے بازو پر ایک دھاگا بندھا ہوا دیکھا، انہوں نے اسے کاٹ دیا اور یہ آیت پڑھی، اور ابو داؤد اور ترمذی نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ جس نے غیر اللہ کے نام کی قسم کھائی، اس نے شرک کیا، اور امام احمد، ابو داؤد وغیرہ نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : جھاڑ پھونک، گنڈا تعویذ اور دھاگے باندھنا شرک ہے، اور امام احمد نے عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے فرمایا : جو بدشگونی کی وجہ سے کسی کام سے رک گیا، اس نے شرک کیا۔ معلوم ہوا کہ بعض مسلمانوں میں ایمان حقیقی اور شرک خفی اصغر کا اجتماع ہوسکتا ہے، جس طرح زمانہ جاہلیت کے لوگوں میں ایمان باللہ اور شرک اکبر دونوں بیک وقت پائے گئے، اور شرک خفی اصغر ایمان حقیقی کے منافی نہیں ہے، اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ آدمی اللہ کے ذریعہ شرک سے پناہ مانگے۔