قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَن نَّفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِن لَّمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِّنَ الصَّاغِرِينَ
اس عورت نے کہا یہی ہے وہجس کے بارے میں تم نے مجھے ملامت کی اور بلاشبہ میں نے اسے اس کے نفس سے ورغلایا تھا۔ مگر یہ بالکل بچ گیا اور اگر اس نے وہ نہ کیا جو میں اسے حکم دیتی ہوں تو اسے ضرور قید کیا جائے گا اور یہ ہر صورت بے عزت ہونے والوں سے ہوگا۔“ (٣٢)
(30) زلیخا نے ان عورتوں سے کہا کہ یہی وہ پیکر حسن ہے جس کے بارے میں تم عورتیں مجھے کو ستی تھیں، اور جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ تمام عورتیں یوسف کے حسن سے مسحور ہوگئی ہیں اور اسے معذور سمجھنے لگتی ہیں تو اپنا دل کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ ہاں میں نے اسے ورغلایا تھا، لیکن اس نے قطعی طور پر انکار کردیا ہے، اور ذرا سی بھی لچک نہیں دکھائی ہے، اس کے بعد اس نے شرم و حیا کی چادر ایک طرف پھینک دی اور عشق و سرمستی کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی کہا کہ میرا اس سے جو مطالبہ ہے اگر اس نے پورا نہیں کیا تو اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا، اور اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔