وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
” اور جس شخص نے اسے مصر سے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا اسے اچھے انداز میں رکھیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔ اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جگہ دی، تاکہ ہم اسے معاملات کی حقیقت تک پہنچنا سکھائیں۔ اللہ اپنے کام پر غالب ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (٢١)
(21) اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم یوسف کے شامل حال تو ہر وقت رہا کہ بے رحم بھائیوں کے پنجے سے نکالا، پھر کنواں سے نکال کر نئی زندگی دی، اور اب اس کا لطف خاص دیکھئے کہ مصر کے خزانوں کا وزیر (عزیز مصر) انہیں خرید کر اپنے گھر لایا اور اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ اس کے کھانے پینے اور اس کی رہائش کا اچھا انتظام کرو، تاکہ ہم سے جلدی مانوس ہوجائے اور اپنے آپ کو اپنوں کے درمیان محسوس کرنے لگے، کیونکہ میں اس کی پیشانی میں خیرو برکت کے آثار پارہا ہوں، مجھے امید ہے کہ یہ ہمارے کام آئے گا، یا ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے، اس لیے کہ ہماری کوئی اولاد نہیں ہے اور بڑا ہو کر میری جگہ حاصل کرلے گا، اور امور وزارت سنبھال لے گا۔ کہتے ہیں کہ یوسف جو کام کرتے اس میں کامیاب ہوتے اور جب سے عزیز مصر کے گھر میں قدم رکھا اس کی کھیتی اور مال و تجارت میں خوب برکت ہونے لگی۔ یوسف کے ساتھ شروع سے لے کر اب تک جو کچھ ہوا، اللہ کی مرضی سے ہوا، اور اس لیے ہوا تاکہ اللہ انہیں عزیز مصر کے گھر پہنچا دے، پھر وہ کچھ واقع ہوا جو زلیخا کی جانب سے ہوا، یوسف جیل جائیں، اور اللہ انہیں خواب کی تعبیر سکھائے، اور پھر وہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتا کر وزارت کی کرسی پر پہنچ جائیں، یہ اللہ کا فیصلہ تھا جسے بہرحال ہونا تھا، لیکن اکثر لوگ اس حقیقت پر یقین نہیں رکھتے ہیں، کہ اللہ کے فیصلے میں کوئی دخل انداز نہیں ہوسکتا ہے۔