وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُم مَّقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنظِرُونِ
” اور انھیں نوح کی خبر پڑھ کر سنائیں جب اس نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اگر میرا کھڑا ہونا اور اللہ کی آیات کے ساتھ میرا نصیحت کرنا تم پر گراں گزرتا ہے تو میں نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا ہے، پس تم اپنا معاملہ اپنے شرکاء کے ساتھ مل کرمتفقہ فیصلہ کرلو پھر تمہارا معاملہ تم پر کسی طرح مبہم نہ رہے پھر میرے ساتھ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو۔“
(51) چونکہ مشرکین عرب کا حال کفر و شرک میں قوم نوح جیسا تھا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا کہ انہیں قوم نوح کا واقعہ سنا دیجیے، جب ان لوگوں نے اپنے کفر و شرک پر اصرار کیا اور نوح (علیہ السلام) کی ہزار کوشش کے باوجود اسلام نہیں لائے تو اللہ نے انہیں طوفان کے حوالے کردیا، تو اے مشرکین عرب ! کہیں کفر و سرکشی اور شرک پر تمہارے اصرار کی وجہ سے تمہارا انجام بھی انہی جیسا نہ ہو، نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر تمہارے ساتھ میرا رہنا، اور دعوت الی اللہ کا کام کرنا تم پر بہت زیادہ گراں ہوگیا ہے تو میں نے بھی اب اپنی طرف سے دفاع کے لیے اللہ پر بھروسہ کرلیا ہے، تم اور تمہارے شرکاء مجھے ہلاک کرنے کی جو چاہو تدبیر کرلو، اور دیکھو ! بالکل کھل کر تدبیر کرو، کوئی کسر نہ اٹھا رکھو، پھر قتل یا شہر بدر کرنے کی جو بھی کوشش کرنی چاہتے ہو کر گزرو، اور مجھے ایک لمحے کی مہلت نہ دو۔ میں نے آج تک تمہیں راہ راست پر لانے کی جتنی بھی کوشش کی اس کا مقصد کوئی دنیاوی حقیر فائدہ حاصل کرنا نہیں تھا، اور نہ میں نے تم سے اس کام کی کبھی کوئی اجرت مانگی ہے، کہ تم لوگ مجھے متہم کرو۔ میرا اجر و ثواب تو مجھے میرا اللہ دے گا، چاہے تم ایمان لاؤ یا انکار کردو، اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں ہر حال میں اللہ کا مطیع و فرمانبردار رہوں، جب ان تمام تر کوششوں اور نصیحتوں کے باوجود ان کی قوم نے انہیں جھٹلا دیا، تو اللہ نے انہیں اور ان کے ماننے والوں کو کشتی میں سوار کر کے طوفان سے بچا لیا، جن کی اولاد کے ذریعہ پھر سے دنیا آباد ہوئی، اور اللہ کی آیتوں کو جھٹلانے والے سبھی لوگ ڈبو دیئے گئے۔