سورة یونس - آیت 24

إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَن لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” دنیا کی زندگی کی مثال تو بس اس پانی کی سی ہے جسے ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے ساتھ زمین کی نباتات خوب گنجان ہوگئی، جس سے انسان اور چوپائے کھاتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین شاداب اور خوب مزین ہوگئی اور اس کے رہنے والے گمان کر بیٹھے کہ یقیناً وہ اس پر قادر ہیں تو رات یا دن کے وقت اس پر ہمارا حکم آگیا تو ہم نے اسے جڑ سے کاٹ کر رکھ دیا، جیسے وہ کل تھی ہی نہیں۔ اسی طرح ہم ان لوگوں کے لیے نشانیاں مفصل بیان کرتے ہیں جو سوچتے ہیں۔“ (٢٤)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(22) دنیا کی بے ثباتی کو ایک دوسری مثال کے ذریعہ بیان کیا جارہا ہے کہ جس طرح لہلہاتے پودے کچھ ہی دنوں کے بعد مرجھا جاتے ہیں اور پھر خشک ہو کر اپنی تازگی اور خوبصورتی کھو بیٹھتے ہیں وہی حال دنیا کا ہے کہ یہ اپنی عارضی رونق سے لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیتی ہے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے ایام ختم ہوجاتے ہیں اور موت آدبوچتی ہے اور سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاتا ہے اور آدمی دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔