قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ
” ان سے لڑو، اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انہیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔ (١٤)
(13) اللہ تعالیٰ تو قادر ہے کہ آن واحد میں دشمنان دین کو ہلاک کردے لیکن اس نے ایسا نہ کر کے جہاد کا حکم دیا اس لیے کہ وہ اپنے مؤمن بندوں کے ہاتھوں ان مشر کین کو سزا دینا چاہتا ہے انہیں رسواکر نا چاہتا ہے اور ان کے خلاف مؤمنوں کو مدد کر کے کافروں کو بتانا چاہتا ہے کہ اللہ مؤمن بندوں کے ساتھ ہوتا ہے اور مشروعیت جہاد کی دوسری علت یہ ہے کہ اللہ اپنے مسلمان بندوں کے ہاتھوں ان کافروں کا صفا یا کروا کر ان کے دلوں کو ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے اس لیے کہ انہیں ان مشرکین کے ہاتھوں بڑی اذتیں پہنچی ہیں اور بڑا غم اٹھا یا ہے جب اپنے ہاتھوں انہیں قتل کریں گے تو ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں سے محبت کرتا ہے اور ان کی خوشی کا خیال رکھتا ہے جبھی تو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کے دل کا بوجھ ہلکاہو۔