وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ
” اور اگر وہ عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑدیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو بے شک ان لوگوں کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے تاکہ وہ باز آجائیں۔“ (١٢)
(11) اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اگر مشرکین معاہدہ کی پاسداری کریں تو تم ان کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کا خیال رکھو یہاں اسی بات کی تکمیل ہے کہ اگر وہ معاہدہ پر قائم نہ رہیں یا تمہارے خلام دشمنوں کی مدد کریں اور تمہارے دین کی عیب جوئی کریں تو ان روسائے کفر سے بالخصوص اور تمام مشرکین سے بالعموم جنگ کرو کیونکہ بدعہدی ان کی گھٹی میں پڑی ہے ان پر کسی حال میں بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ آیت میں ائمہ الکفر کا بالخصو ص ذکر اس لیے آیا ہے کہ دراصل یہی لوگ ہر دور میں داعیان حق کے خلاف سازشیں کرتے ہیں عوام تو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور دین کی عیب جوئی سے مراد ہر وہ بات ہے جو اللہ یا اس کے رسول کے خلاف یا قرآن و حدیث کے خلاف کہی جائے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں اللہ کے نزدیک وہ کافروں کے سرغنہ ہوتے ہیں۔