سورة الاعراف - آیت 59

لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” بلاشبہ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں یقیناً میں تمہیں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈراتاہوں۔ (٥٩)

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(46) اس سورت کی ابتدا میں آدم (علیہ السلام) کا قصہ تفصیل کے ساتھ گذر چکا ہے، اب یہاں سے دیگر چھ مشہور انبیاءورسل کے قصے بیان کئے جا رہے ہیں، اور وہ نو ح، ہود، صالح، لوط، شعیب، اور موسیٰ علیہم السلام ہیں، اس سے مقصود یہ ہے کہ کفار قریش کو مختلف انداز میں اللہ کی طرف بلایا جائے انہیں بتایا جائے کہ جس طرح گذشتہ انبیاء کرام آئے تو جن لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا اللہ نے انہیں نجات دی اور کافروں کو ہلاک کردیا اگر تم بھی ایمان لاؤ گے تو اللہ کی جانب سے عزت واکرام کے مستحق بنو گے ورنہ تمہیں بھی ہلاک کردیا جائے گا اور اللہ تمہاری پرواہ نہیں کرے گا۔ ان واقعات کے بیان کرنے کا ایک دوسرافائدہ نبی کریم (ﷺ) کی نبوت کی تصدیق ہے، وہ اس طرح کہ وہ اللہ کی نبی ہیں جبھی تو اللہ نے انہیں بذریعہ وحی باتیں بتائی ہیں ورنہ انہیں کہاں سے ان باتوں کی خبر ہوتی، مندرجہ ذیل آیتوں میں نوح (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ عبد اللہ بن عباس اور دیگر ائمہ تفسیر سے مروی ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی بعت سے پہلے جب کوئی نیک آدمی مرجا تا تو لوگ اس قبر پر مسجد بنا دیتے اور اس کی تصویر اس پر لٹکا دیتے، پھر مرور زمانہ کے ساتھ لوگ ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر ان کی پوجا کرنے لگتے، اور جب ان کا شرک حد سے آگے بڑھ گیا، تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو بھیجا تاکہ پھر سے انہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیں، چنا چہ جب انہوں اپنی دعوت کا اعلان کیا تو ان کی قوم کے سرداروں نے انہیں سخت گمراہ قرار دیا، حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ہر دور میں فاسقوں اور فاجروں کا یہی حال رہا ہے کہ وہ نیک لوگوں کو بے وقوف اور گمراہ سمجھتے رہے ہیں۔ نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ میں گمراہ نہیں بلکہ اللہ کا رسول ہوں اور تمہیں اس کا پیغام پہنچا رہا ہوں اور میں تمہارے لیے مخلص ہوں اور اللہ کی جانب سے میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جاتنے۔ لیکن ان کی قوم ان کی تکذیب ومخالفت میں تیز تر ہوتی گئی، تو اللہ نے انہیں اور ان کی مؤمن ساتھیوں کو پچالیا اور ان کے دشمنوں کو طوفان کے ذریعہ ہلاک کردیا۔