بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے شروع کرتاہوں جو بہت مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔
سورۃ الفاتحہ: 1۔ یہ سورت مکی ہے یا مدنی ؟ مکی ان سورتوں کو کہتے ہیں جو ہجرت سے قبل نازل ہوئیں، اور مدنی ان کو جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں اکثر مفسرین کے نزدیک سورۃ الفاتحہ ہجرت سے پہلے نازل ہوئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سورۃ الفاتحہ دو بار نازل ہوئی۔ پہلی بار مکہ مکرمہ میں اور دوسری بار ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں۔ لیکن راجح یہی ہے کہ یہ صرف ایک بار ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ 2۔ اس کے کئی نام ہیں : قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں اس سورت کے کئی نام آئے ہیں۔ امام قرطبی نے اس کے بارہ نام بتائے ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔ الصلاۃ۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں آیا ہے۔ قسمت الصلاۃ بینی وبین عبدی نصفین۔ الحدیث۔ یعنی میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ اس حدیث میں صلاۃ سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ اس سورت کا ابتدائی نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کی ربوبیت، الوہیت اور ملوکیت کا اعتراف ہے، اور دوسرا نصف حصہ اللہ سے دعا و مناجات ہے۔ الحمد۔ اس لیے کہ اس سورت میں حمد کا ذکر ہے۔ فاتحۃ الکتاب : اس لیے کہ قرآن کریم کی تلاوت، مصحف کی کتابت اور نماز کی ابتدا اسی سورت سے ہوتی ہے۔ ام الکتاب : امام بخاری (رح) نے کتاب التفسیر کے شروع میں لکھا ہے کہ اس کا نام ام الکتاب اس لیے کہ مصحف کی کتابت اور نماز میں قراءت کی ابتدا اسی سے ہوتی ہے۔ ایک توجیہہ اس کی یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سورت میں قرآن کریم کے تمام معانی و مضامین کا ذکر اجمالی طور پر آگیا ہے۔ ام القرآن : امام ترمذی نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : سورۃ الحمد للہ، ام القرآن ہے، ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے۔ السبع المثانی : اس لیے کہ یہ سورت سات آیتوں پر مشتمل ہے اور نماز کی ہر رکعت میں ان آیتوں کا اعادہ ہوتا ہے۔ القرآن العظیم : اس لیے کہ اس میں تمام قرآنی علوم کا ذکر کیا گیا ہے۔ الشفاء : امام دارمی نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : فی فاتحۃ الکتاب شفاء من کل داء۔ یعنی سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لیے شفا رکھی ہے۔ الرقیہ : یعنی دم، اس لیے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس صحابی سے جس نے ایک سردارِ قبیلہ پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اور اس کے جسم سے سانپ کا زہر اتر گیا تھا کہ تجھے کس نے بتایا کہ یہ دم ہے۔ ؟ تو صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی تھی۔ الاساس : امام شعبی (رح) نے حضرت ابن عباس رضی الہ عنہما سے روایت کی ہے کہ قرآن کی اساس سورۃ فاتحہ ہے، جب کبھی بیماری پڑو تو اس سورت کے ذریعہ شفا حاصل کرو۔ الوافیۃ۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ نماز میں سورۃ فاتحہ کی تقسیم نہیں ہوسکتی۔ یعنی دیگر سورتوں کی طرح اسے نصف نصف دو رکعتوں میں پڑھنا جائز نہیں اس لیے اس کا نام الوافیہ ہے۔ الکافیة: یحیی بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ یہ سورت دوسری سورتوں کے بدلے میں کافی ہوجاتی ہے۔ لیکن دوسری سورتیں اس کے بدلہ میں کافی نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے اس کا نام الکفایہ ہے۔ 3۔ اس کی فضیلت : یہ سورت قرآن کریم کی عظیم ترین سورت ہے اس کی فضیلت میں نبی کریم کی کئی صحیح حدیثیں آئی ہیں یہاں کچھ حدیثوں کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے : 1۔ ترمذی اور نسائی نے ابی بن کعب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تورات و انجیل میں ام القرآن یعنی سورۃ فاتحہ جیسی سورت نہیں اتاری۔ اسی کو سبع مثانی بھی کہتے ہیں۔ 2۔ مسند احمد میں ہے کہ ابو سعید بن المعلی (رض) کو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کہا کہ میں تجھے مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کریم کی عظیم ترین سورت سکھاؤں گا۔ پھر آپ نے انہیں سورۃ فاتحہ کی تعلیم دی۔ اس حدیث کو امام بخاری، ابوداود، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔ 3۔ امام مالک نے مؤطا میں روایت کی ہے کہ ابوسعید مولی عامر بن کریز نے بتایا کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ابی بن کعب (رض) کو کہا، میں تجھے مسجد سے نکلنے سے قبل ایک ایسی سورت بتاؤں گا جیسی تورات و انجیل میں نہیں اتاری گئی، اور نہ ہی قرآن میں ویسی کوئی دوسری سورت ہے۔ پھر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پوچھا کہ جب نماز کی ابتدا کرتے ہو تو کیا پڑھتے ہو ؟ انہوں نے الحمد للہ رب العالمین پڑھی، آپ نے فرمایا : یہی وہ سورت ہے۔ 4۔ امام احمد نے عبداللہ بن جابر (رض) سے ایک حدیث روایت کی ہے۔ جس میں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ قرآن کریم کی سب سے بہترین سورت سورۃ فاتحہ ہے۔ 5۔ اس سورۃ کریمہ کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ اسے پڑھ کر پھونکنے سے سانپ کے کاٹے کا زہر اللہ کے حکم سے اتر جاتا ہے۔ امام بخاری نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم ایک بار سفر میں تھے۔ ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، تو ایک لڑکی آئی اور بتایا کہ قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے اور ہمارے لوگ باہر گئے ہوئے ہیں، کیا آپ لوگوں میں کوئی دم کرنے والا ہے ؟ تو ہم میں سے ایک آدمی اٹھ کر گیا، جس کے بارے میں ہم لوگ نہیں جانتے تھے کہ دم کرنا جانتا ہے۔ اس نے دم کیا تو سانپ کا زہر اتر گیا۔ اس نے اسے تیس بکریاں دیں۔ اور ہم سب کو دودھ بھی پلایا۔ جب وہ واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا تم دم کرنا جانتے تھے۔ اس نے جواب میں کہا کہ میں نے تو صرف سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ہے۔ ہم نے کہا کہ بکریوں کے معاملہ کو ایسے ہی رہنے دو۔ یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھ لیں۔ جب ہم مدینہ آئے اور آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اسے کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ منتر ہے۔ تم لوگ ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کرتے وقت میرا بھی ایک حصہ رکھنا۔ اس حدیث کو امام مسلم اور امام ابو داود نے بھی روایت کیا ہے امام مسلم کی بعض روایتوں میں ہے کہ دم کرنے والے ابوسعید خدری (رض) ہی تھے۔ 6۔ امام مسلم اور نسائی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اور جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس موجود تھے کہ اوپر سے ایک آواز سنائی دی۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا کہ آسمان کا یہ دروازہ آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا اس سے ایک فرشتہ اترا اور رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو دو نور دئیے جانے کی خوشخبری دیتا ہوں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے۔ سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں۔ ان کا ایک حرف بھی آپ پڑھیں گے تو اس کا بدل آپ کو دیا جائے گا۔ 7۔ سورۃ فاتحہ کی فضیلت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہوگی۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس بات کو تین بار دہرایا۔ اس حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے نماز (یعنی سورۃ فاتحۃ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور میں اپنے بندے کو وہ دیتا ہوں جو وہ مانگتا ہے (مسلم، نسائی مؤطا، مسند احمد) 4۔ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا امام اور مقتدی سب پر واجب ہے : نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔ جن حضرات نے سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب نہیں سمجھا ہے ان کی مشہور دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں : الف : اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ وَإِذَا قُرِىءَ القرآن فاستمعوا لَهُ وَأَنصِتُواْ Ĭ ۔ الآیہ۔ یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اختیار کرو اور دھیان دے کر سنو۔ (الاعراف : 204)۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے اور نماز میں قرات فاتحہ کے وجوب سے متعلق حدیثیں خاص اور بہت ہی واضح اور صریح ہیں اور اس آیت کی تخصیص کرتی ہیں۔ ب۔ ان کی دوسری دلیل رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا یہ قول ہے کہ مالی انازع القرآن۔ یعنی کیا بات ہے کہ نماز میں لوگ میرے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : لاتفعلوا الا بام القرآن فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرا بھا۔ یعنی سورۃ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو۔ کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (ابو داود، ترمذی، نسائی)۔ ج۔ ان کی تیسری مشہور دلیل یہ حدیث ہے۔ من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ۔ یعنی اگر کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہوگی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں محدثین کا کلام ہے، وجوب قراءت فاتحہ والی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے یہ قابل قبول نہیں لیکن اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ وجوب قراءت والی حدیثیں اس کی تخصیص کرتی ہیں۔ یعنی جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کے بعد امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہوگی۔ اب آئیے، ان احادیث صحیحہ پر ایک نظر ڈالی جائے جن کی بنیاد پر محدثین کرام کی کثیر تعداد نے فاتحہ کی قراءت کو امام اور مقتدی سب کے لیے واجب قرار دیا ہے۔ 1۔ ابوہریرہ (رض) کی حدیث جو اوپر گذر چکی ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : جس نے کوئی نماز پڑھی، اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہوگی۔ آپ نے یہ بات تین بار دہرائی۔ ابوہریرہ (رض) سے کہا گیا کہ ہم لوگ تو امام کے پیچھے ہوتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ دل میں پڑھ لیا کرو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کہتے سنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں نے نماز (سورہ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ الحدیث (مسلم، نسائی، مؤطا، مسند احمد) 2۔ ابو ہریرہ (رض) ہی کی دوسری حدیث کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : وہ نماز کفایت نہیں کرتی جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے (صحیح ابن خزیمہ) 3۔ عبادہ بن صامت (رض) کی حدیث کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا۔ (متفق علیہ) 4۔ ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ مجھے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے یہ اعلان کردینے کا حکم دیا۔ لا صلاۃ الا بقراءۃ فاتحۃ الکتاب فما زاد۔ یعنی نماز صحیح نہیں ہوتی جب تک سورۃ فاتحہ اور قرآن کا کچھ اور حصہ نہ پڑھا جائے (ابوداود) یہی قول صحابہ کرام میں عمر بن خطاب، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ، ابی بن کعب، ابو ایوب انصاری، عبداللہ بن عمرو بن العاص، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، عثمان بن ابی العاص، خوات بن جبیر اور عبداللہ بن عمر (رض) وغیرہم کا ہے اور ائمہ کرام میں شافعی، احمد، مالک، اوزاعی وغیرہم کی یہی رائے ہے۔ یہ سبھی حضرات نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کو واجب قرار دیتے ہیں۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم : اس کا معنی یہ ہے کہ ” میں اللہ تعالیٰ کے ذریعہ مردود شیطان سے پناہ مانگتا ہوں“ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بندوں کو مردود شیطان کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا ان آیتوں میں اللہ نے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو شیطان سے پناہ مانگنے کی نصیحت کی ہے، کیونکہ جنوں کا شیطان، انسان کا ایسا دشمن ہے جو کسی بھی بھلائی اور احسان کو نہیں مانتا۔ اور ہر وقت اس کے خلاف سازش میں لگا رہتا ہے۔ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صحیح احادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے کہ مسلمان کی زندگی میں اللہ کے ذریعہ شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگنے کی بڑی اہمیت ہے۔ ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے، پھر کہتے۔ سبحانک اللہم ربنا و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک۔ پھر تین بار لا الہ غیرک۔ کہتے، پھر کہتے : اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ و نفخہ ونفثہ۔ (ابو داود، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ) عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہا کرتے تھے۔ اللہم انی اعوذبک من الشیطان الرجیم من نفخہ و نفثہ۔ (ابن ماجہ)۔ معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ دو آدمی نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آپس میں گالی گلوچ کیا۔ ان میں سے ایک آدمی اتنا زیادہ غصہ ہوا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا اس کی ناک غصہ سے پھٹ جائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جسے اگر وہ کہے تو اس کا غصہ ختم ہوجائے۔ معاذ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول، وہ کون سا کلمہ ہے۔ تو آپ نے فرمایا، یوں کہے۔ اللہم انی اعوذبک من الشیطان الرجیم۔ الحدیث (احمد، ابو داود ترمذی، نسائی) اسی حدیث کو حافظ ابو یعلی موصلی نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم : عام حالات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کا خاص طور پر حکم دیا ہے کہ جب وہ قرآن کریم کی تلاوت کرنا چاہیں تو پہلے اللہ کے ذریعہ شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگ لیں۔ سورۃ النحل میں ہے۔۔ جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کے ذریعہ مردود شیطان سے پناہ مانگ لو۔ اسی آیت کے پیش نظر جمہور علماء کا قول ہے کہ نماز کے علاوہ دیگر حالات میں قراءت قرآن کی ابتدا سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا مستحب ہے۔ حالت نماز کے بارے میں راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ اور سورۃ فاتحہ کے قبل اعوذ باللہ سری یا جہری طور پر پڑھ لیا جائے، کیونکہ یہ آیت قراءت قرآن کی تمام حالتوں کو شامل ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ کس سورت کی آیت ہے؟ صحابہ کرام نے حضرت عثمان (رض) کے زمانے میں جو مصحف تیار کیا اور جس کی تمام صحابہ کرام نے تائید و توثیق کی، اس مصحف میں سورۃ براءت کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ لکھی گئی۔ اس مصحف میں کوئی بھی ایسی چیز نہ لکھی گئی جو قرآن کریم کا حصہ نہ تھی، نہ سورتوں کے نام لکھے گئے، نہ ہی آیتوں کی تعداد اور نہ کلمہ آمین۔ تاکہ کوئی شخص۔ اللہ نہ کرے۔ غیر قرآن کو قرآن نہ سمجھ لے۔ اس تمام تر احتیاط کے باوجود بسم اللہ صرف ایک سورت کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں لکھی گئی۔ جن کی تعداد ایک سو تیرہ ہے۔ یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ بسم اللہ، سورۃ نمل کی ایک آیت کا بعض حصہ ہونے کے علاوہ ایک مستقل آیت ہے، جو رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ہر سورت کی ابتدا سے پہلے اترا کرتی تھی۔ اور اسی کے ذریعہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جان پاتے تھے کہ ایک سورت ختم ہوگئی، اب دوسری سورت کی ابتدا ہونے والی ہے۔ اس کی تائید حضرت ابن عباس (رض) کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک سورت کی انتہا اور دوسری سورت کی ابتدا اس وقت تک نہیں جانتے تھے جب تک بسم اللہ الرحمن الرحیم نئے سرے سے نازل نہیں ہوتی تھی۔ اس حدیث کو ابو داود اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ یہاں تک یہ بات ثابت ہوگئی کہ بسم اللہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے۔ اس کے بعد علمائے کرام کا اختلاف رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ سورۃ براءت کے علاوہ یہ ہر سورت کی ایک آیت ہے، تو گویا سورۃ فاتحہ کی بھی ایک آیت ہے۔ امام مالک، ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ یہ نہ تو سورۃ فاتحہ کی آیت ہے نہ ہی کسی دوسری سورت کی۔ داود ظاہری کا خیال ہے کہ ہر سورت کی ابتدا میں یہ ایک مستقل آیت ہے، لیکن کسی سورت کا حصہ نہیں ہے۔ بسم اللہ باآواز پڑھی جائے یا آہستہ : اس اختلاف کی وجہ سے جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ کو باآواز بلند پڑھنے کے بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہوگیا ہے۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سورۃ فاتحہ کی ایک آیت نہیں اور وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مستقل آیت ہے، کسی سورت کی آیت نہیں، وہ کہتے ہیں کہ جہری نمازوں میں بسم اللہ آہستہ پڑھی جائے گی، اور جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ سورۃ براءت کے علاوہ ہر سورت کی آیت ہے، ان میں امام شافعی اسے جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ اور ہر سورت کے پہلے بآواز بلند پڑھنے کے قائل ہیں۔ ان لوگوں نے ابوہریرہ، ابن عباس، اور ام سلمہ (رض) وغیرہم سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے، جن میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی۔ (دیکھئے ابن کثیر و فتح القدیر)۔ لیکن خلفائے اربعہ، احمد بن حنبل اور سفیان ثوری وغیرہم کی رائے ہے کہ نماز میں بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھی جائے گی۔ ان لوگوں نے امام مسلم کی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نماز میں قراءت، الحمد للّٰہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔ اسی طرح صحیحین کی حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )، ابوبکر، عمر، اور عثمان (رض) کے پیچھے نماز پڑھی، یہ حضرات ابتدا الحمد للہ رب العالمین سے کرتے تھے۔ چونکہ دونوں ہی قسم کی حدیثیں صحیح ہیں۔ اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بسم اللہ کبھی آہستہ پڑھی اور کبھی بآواز بلند، اور جس صحابی نے جیسا دیکھا ویسا بیان کیا۔ بہتر یہی ہے کہ کبھی آہستہ پڑھی جائے اور کبھی بآواز بلند، تاکہ دونوں قسم کی حدیثوں پر عمل ہوجائے، اور ائمہ کرام کا اجماع بھی ہے کہ چاہے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی جائے یا آہستہ، نماز کی صحت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ بسم اللہ کی فضیلت : قرآن کریم کی کئی آیتوں اور کئی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں بسم اللہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اور کوئی بھی کام کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا باعث خیر و برکت اور اللہ کی نصرت و حمایت اور تائید و حفاظت کا سبب ہے۔ مسند احمد کی روایت ہے کہ بسم اللہ کہنے سے شیطان ذلیل ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ مکھی کی مانند حقیر بن جاتا ہے۔ اسی لیے کھانے پینے، جانور ذبح کرنے، بیوی سے مباشرت کرنے، وضو کرنے، اور بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اور تمام دوسرے کاموں کے کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا مستحب ہے۔ بسم اللہ کا معنی۔ یعنی ” میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے“ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آدمی جب کوئی کام شروع کرنا چاہے تو اس کی ابتدا کرتے وقت نیت کرے کہ میں اس کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرتا ہوں۔ ” اللہ“ رب العالمین کا مخصوص نام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اسم اعظم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دیگر تمام صفات اسی مخصوص نام کے وصف کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔ رب العالمین کے علاوہ دوسروں کے لیے اس نام کا استعمال جائز نہیں۔ ” الرحمن“ اور ” الرحیم“ دونوں اللہ کی صفت ہیں۔ اور رحمت سے ماخوذ ہیں، دونوں میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ ” الرحمن“ میں ” الرحیم“ سے زیادہ مبالغہ ہے۔ اسی لیے مفسرین نے لکھا ہے کہ ” الرحمن“ رحمت کے تمام اقسام کو عام ہے اور دنیا و آخرت میں تمام مخلوق کو شامل ہے۔ جبکہ ” الرحیم“ مؤمنین کے لیے خاص ہے۔ اللہ نے فرمایا وَكَانَ بالمؤمنين رَحِيماً ۔ الاحزاب :43۔ بعض علمائے تفسیر ” الرحمن“ کو تو ” احسان عام“ کے لیے مانتے ہیں۔ یعنی اللہ کی رحمت اس کی تمام مخلوقات کے لیے عام ہے، لیکن ” الرحیم“ کو مؤمنین کے لیے خاص نہیں مانتے۔ انہوں نے ان دونوں صفات کی ایک بڑی اچھی توجیہہ بیان کی ہے جو عربی زبان کے مدلول کے بالکل موافق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لفظ ” الرحمن“ سے مراد وہ ذات ہے جس کی نعمتوں کا فیض عام ہے، لیکن یہ فعل عارضی بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ عربی میں اس وزن کے اوصاف فعل کے عارضی ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور لفظ ” الرحیم“ دائمی اور مستقل صفت رحمت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے جب عربی زبان کا سلیقہ رکھنے والا اللہ تعالیٰ کی صفت ” الرحمن“ سنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ ذات جس کی نعمتوں کا فیض عام ہے۔ لیکن وہ نہیں سمجھتا کہ ” رحمت“ اس کی دائمی صفت ہے۔ اس کے بعد جب وہ ” الرحیم“ ہے تو اسے یقین کامل ہوجاتا ہے کہ ” رحمت“ اس کی دائمی اور ایسی صفت ہے جو اس سے کبھی جدا ہونے والی نہیں (محاسن التنزیل : 2، 6) یہاں ایک اور بات ذکر کردینے کے قابل ہے۔ الرحمن، نام اللہ کے ساتھ خاص ہے، غیر اللہ کے لیے اس نام کا استعمال جائز نہیں نے فرمایا۔ ۔ الاسراء : 110۔ جبکہ الرحیم غیر اللہ کی صفت، اس کی حیثیت و کیفیت کے مطابق، بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے۔ بالمؤمنین رؤوف رحیم۔ یعنی وہ مؤمنوں کے ساتھ رافت و رحمت کا سلوک کرنے والے ہیں۔ التوبہ : 128)۔ اللہ کے اسماء و صفات پر ایمان لانا ضروری ہے۔ ائمہ سلف کے نزدیک یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر اور اس کی صفات پر مرتب شدہ احکام پر ایمان لانا واجب ہے۔ قرآن کریم میں اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی صحیح احادیث میں اللہ کے جو اسماء و صفات ثابت ہیں۔ ان پر اسی طرح ایمان لانا ضروری ہے جس طرح ثابت ہیں، نہ ان کی کیفیت بیان کی جائے گی اور نہ ہی ان کی تاویل کی جائے گی اور نہ انہیں معطل قرار دیا جائے گا۔ امام مالک (رح) سے جب اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : استواء معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے، اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ اسی طرح اللہ کی صفات پر جو احکام مرتب ہوتے ہیں ان پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلا ” الرحمن“ اور ” الرحیم“ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، تو یہ ایمان رکھنا ہوگا کہ اللہ بڑا ہی رحمت والا اور بہت ہی مہربان ہے۔ اسے ہر چیز کا علم ہے۔ یہی قاعدہ تمام صفات الٰہیہ کے بارے میں جاری ہوگا۔ سلفِ صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے۔ اور اسی طریقہ کو اختیار کرنے میں ہر بھلائی ہے۔