سورة الانعام - آیت 159

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ بندی کی اور کئی گروہ بن گئے آپ کسی حال میں بھی ان سے نہیں ہیں ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں بتائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔“ (١٥٩)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٨٢] تفرقہ بازی کی بنیاد حب جاہ ومال ہوتی ہے :۔ فرقہ بازی ایسی لعنت ہے کہ ملت کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیتی ہے اور ایسی قوم کی ساکھ اور وقار دنیا کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرقہ بندی کو عذاب ہی کی ایک قسم بتایا ہے اور دوسرے مقام پر فرقہ بازوں کو مشرکین کے لفظ سے ذکر کیا گیا ہے وجہ یہ ہے کہ کسی بھی مذہبی فرقہ کا آغاز کسی بدعی عقیدہ سے یا عمل سے ہوتا ہے۔ مثلاً کسی نبی یا رسول یا بزرگ اور ولی کو اس کے اصل مقام سے اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک بنا دینا یا کسی کی شان کو بڑھا کر بیان کرنا یا کسی سے بغض و عناد رکھنا وغیرہ۔ یہی وہ غلو فی الدین ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے شدت سے منع فرمایا اور بدعی اعمال کا زیادہ تر تعلق سنت رسول سے ہوتا ہے۔ کسی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ترک کردینا یا کسی نئے کام کا ثواب کی نیت سے دین میں اضافہ کردینا وغیرہ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دین میں اس کام کی پہلے کمی رہ گئی تھی جو اب پوری کی جا رہی ہے۔ پھر یہ فرقہ بازیاں عموماً دو ہی قسم و کی ہوتی ہیں ایک مذہبی جیسے کسی مخصوص امام کی تقلید میں انتہا پسندی۔ یا کسی معمولی قسم کے اختلاف کو اہم اور اہم اختلاف کو معمولی بنا دینا۔ اور دوسرے سیاسی۔ جیسے علاقائی، قومی، لسانی اور لونی بنیادوں پر فرقہ بنانا۔ غرض جتنے بھی فرقے بنائے جاتے ہیں ان کی تہہ میں آپ کو دو ہی باتیں کارفرما نظر آئیں گی ایک حب مال اور دوسرے حب جاہ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بھیڑوں کے کسی ریوڑ میں دو بھوکے بھیڑیئے اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنا حب مال یا حب جاہ کسی کے ایمان کو برباد کرتے ہیں‘‘ (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الرقاق الفصل الثانی) نیز حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جماعت المسلمین اور ان کے امام سے چمٹے رہنا۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’اگر جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو تو کیا کروں؟‘‘ فرمایا ’’تو پھر ان تمام فرقوں سے الگ رہنا خواہ تمہیں درختوں کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں۔ یہاں تک کہ تمہیں اسی حالت میں موت آجائے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب الفتن۔ باب کیف الا مر اذا لم تکن جماعۃ مسلم۔ کتاب الامارۃ باب وجوب ملازمۃ المسلمین عند ظھور الفتن) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے ایک فرقہ نجات پائے گا باقی سب جہنمی ہوں گے۔‘‘ صحابہ نے پوچھا : وہ نجات پانے والا فرقہ کونسا ہوگا ؟ فرمایا ’’جو اس راہ پر چلے گا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔‘‘ (ترمذی۔ کتاب الایمان۔ باب افتراق ھذہ الامۃ)