وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور ماں باپ اور قرابت داروں‘ یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو گے اور لوگوں کو اچھی باتیں کہو گے نماز قائم اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو گے لیکن تھوڑے سے لوگوں کے علاوہ تم سب پھر گئے اور تم پھر جانے والے ہو
[٩٦] گو بظاہر یہ خطاب یہود مدینہ سے ہے۔ تاہم یہ ایسے احکام ہیں جو ہر شریعت میں غیر متبدل رہے ہیں اور ہماری شریعت میں بھی بعینہ موجود ہیں۔ رہا عہد کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی عہد شکنی کا قصہ تو یہ ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی اور ان کی تاریخ ایسی عہد شکنیوں سے بھری پڑی ہے۔