سورة الانعام - آیت 67

لِّكُلِّ نَبَإٍ مُّسْتَقَرٌّ ۚ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ہرخبر کا ایک وقت ہے اور عنقریب تم جان لوگے۔“ (٦٧)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٤] سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا عمرہ کے لئے آنا :۔ اس کی ایک مثال یہ واقعہ ہے کہ انصار کے قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جنگ بدر سے پہلے عمرہ کی نیت سے مکہ آئے اور اپنے حلیف دوست امیہ بن خلف کے پاس ٹھہرے اور اس سے اپنے ارادہ کا اظہار کیا۔ اس وقت ابو جہل رئیس مکہ نے یہ پابندی لگا رکھی تھی کہ کوئی مسلمان کعبہ میں داخل ہونے اور طواف نہ کرنے پائے۔ امیہ بن خلف رواداری کی وجہ سے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو کعبہ لے گیا وہ طواف کر ہی رہے تھے کہ ابو جہل نے دیکھ لیا تو سیدنا سعدرضی اللہ عنہ پر برس پڑا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کڑک کر جواب دیا کہ اگر تم مجھے روکو گے تو میں تمہارے تجارتی قافلہ کی راہ روک کر تمہارا ناک میں دم کر دوں گا۔ امیہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ ابو جہل سے آرام سے بات کرو۔ یہ مکہ کا سردار ہے۔ امیہ بن خلف کے حق میں پیشین گوئی :۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے تم ابو جہل کی اتنی طرف داری نہ کرو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تم ان کے اصحاب کے ہاتھوں قتل ہو گے۔ امیہ نے پوچھا ’’کیا یہاں مکہ میں؟‘‘ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ میں یہ نہیں جانتا۔ پھر کہنے لگے کہ تمہارے قتل کا سبب یہی ابو جہل بنے گا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام) یہ ایک خبر تھی اور اس خبر کے ظہور کا وقت جنگ بدر تھا۔ اس جنگ میں ابو جہل امیہ بن خلف کو سخت مجبور کر کے لے گیا۔ جہاں یہ دونوں انتہائی ذلت کے ساتھ قتل ہوئے۔ ایسے ہی وحی سے معلوم شدہ ہر خبر اور عذاب کے ظہور کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے تو اس کا ظہور ہو کے رہتا ہے اور یہی مستقر کا مطلب ہے۔