سورة الانعام - آیت 33

قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” بے شک ہم جانتے ہیں کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کو وہ بات ضرور غمگین کرتی ہے جو وہ کہتے ہیں تو بے شک وہ آپ کو نہیں جھٹلاتے لیکن وہ ظالم اللہ کی آیات ہی کا انکار کرتے ہیں۔ (٣٣)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣٧] کفار مکہ آپ کی نہیں بلکہ آیات اللہ کی تکذیب کرتے تھے :۔ نبوت سے پہلے مشرکین مکہ آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے نبوت کے اعلان کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بڑے سے بڑے دشمن نے بھی دنیوی معاملات میں آپ کو کبھی جھوٹا نہیں کہا۔ البتہ دین کے متعلق آپ جو کچھ کہتے تھے کافر اسے جھٹلاتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ خود ابو جہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کہی تھی کہ محمد! ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے بلکہ جو کچھ تم لائے ہو ہم اسے جھٹلاتے ہیں۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور اس جھٹلانے کی ایک بڑی وجہ قریش کی قبائلی عصبیت تھی۔ ابو جہل جو قبیلہ بنو مخزوم سے تعلق رکھتا تھا ایک بار کہنے لگا ’’ہم اور بنو عبد مناف (آل ہاشم) ہمیشہ حریف مقابل کی حیثیت سے رہے۔ انہوں نے مہمان نوازیاں کیں تو ہم نے بھی کیں۔ انہوں نے خون بہا دیئے تو ہم نے بھی دیئے۔ انہوں نے فیاضیاں کیں تو ہم نے بھی کیں یہاں تک کہ ہم نے ان کے کندھے سے کندھا ملا دیا۔ اب بنو ہاشم پیغمبری کے دعویدار بن بیٹھے ہیں۔ واللہ ہم اس پیغمبر پر کبھی ایمان نہیں لا سکتے۔ نہ ہی ہم اس کی تصدیق کریں گے۔‘‘ (ابن ہشام ص ١٠٨) گویا شخصی حیثیت سے قریش مکہ کو آپ سے کوئی شکایت نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخالفت اور عداوت محض دین کی دعوت کی وجہ سے تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ کو تسلی دیتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ تمہاری تکذیب نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ ظالم ہماری اور ہماری آیات کی تکذیب کر رہے ہیں۔ آپ زیادہ پریشان نہ ہوں ہم ان سے خود نمٹ لیں گے۔