سورة المآئدہ - آیت 83

وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور جب سنا انھوں نے جو رسول کی طرف نازل کیا گیا ہے آپ دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہہ پڑتی ہیں کیونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا۔ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے سو ہمیں شہادت دینے والوں کے ساتھ لکھ لیں۔ (٨٣)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢٩] ہجرت حبشہ اور نجاشی کا کردار :۔ مشرکین مکہ کی ایذا رسانیوں سے تنگ آ کر ٥ نبوی میں مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ شاہ حبشہ کے ساتھ قریش مکہ کے تجارتی مراسم تھے۔ ان کا ایک وفد ان کو واپس لانے کے لیے وہاں پہنچا۔ اور چند درباریوں سے مل کر انہیں تحفے اور تحائف دے کر اس بات پر آمادہ کیا کہ کل جب ہم نجاشی کے سامنے اپنی عرضداشت پیش کریں تو وہ ہماری ہاں میں ہاں ملا دیں اور سفارش بھی کریں۔ دوسرے دن اس وفد نے دربار میں حاضر ہو کر کہا کہ ہمارے کچھ لوگ وہاں سے بھاگ کر آپ کے ملک میں آ گئے ہیں۔ وہ ہمیں واپس کر دیجئے۔ رشوت لینے والے درباریوں نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی۔ لیکن نجاشی بڑا انصاف پسند بادشاہ تھا۔ اس نے کہا : جب تک دوسرے فریق کی بات نہ سنوں گا میں انہیں تمہارے حوالہ نہیں کرسکتا۔ چنانچہ دوسرے دن مہاجر مسلمانوں کو دربار میں بلا کر ان کا بیان لیا گیا۔ جب انہوں نے ان مشرکوں کی ایذا رسانیوں اور مسلمانوں کی مظلومیت کی داستان سنائی تو اس نے مشرکین مکہ کو صاف جواب دے دیا اور انہیں اپنا سا منہ لے کر رخصت ہونا پڑا۔ اسی وفد کے ایک آدمی کو ایک تدبیر سوجھی جس کی کامیابی اسے یقینی محسوس ہونے لگی۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا ہم کل پھر دربار میں پیش ہوں گے اور میں ایک ایسی بات پیش کروں گا کہ بادشاہ از خود ان مسلمانوں کو ہمارے حوالہ کر دے گا۔ اور وہ بات یہ تھی کہ اس وقت تک پوری عیسائی دنیا میں عیسیٰ علیہ السلام کے ابن اللہ ہونے کا عقیدہ رائج ہوچکا تھا جبکہ مسلمان انہیں ابن اللہ نہیں مانتے تھے۔ فقط اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ ہی سمجھتے تھے۔ چنانچہ دوسرے دن یہ وفد دربار میں حاضر ہوا اور نجاشی سے کہا : ان مفرور بےدینوں سے آپ یہ تو پوچھئے کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں؟ اور کچھ غلط سلط باتیں بھی بتائیں دوسرے دن پھر مسلمانوں کی دربار میں طلبی ہوئی۔ انہیں یہ معلوم ہوچکا تھا کہ کفار مکہ نے اب ہم پر جو نیا وار کیا ہے وہ کس قسم کا ہے۔ بہرحال ان مظلوم مسلمانوں نے آپس میں یہی طے کیا کہ جو بات بھی کہیں گے سچ ہی کہیں گے خواہ ہمیں اس کی کتنی ہی سزا بھگتنی پڑے۔ مسلمانوں نے اس غرض کے لیے سیدنا جعفر طیار کو جو سیدنا علی کے بھائی تھے اپنا نمائندہ منتخب کرلیا۔ دوسرے دن جب نجاشی نے مسلمانوں سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق سوال کیا تو سیدنا جعفر طیار نے جواب میں سورۃ مریم کی متعلقہ آیات پڑھ کر سنا دیں۔ یہ آیات سن کر نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور مسلمانوں سے کہنے لگا ’’واللہ ! جو کچھ تم نے کہا : عیسیٰ علیہ السلام اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں۔‘‘ نجاشی کے اس تبصرہ پر درباری بھی برہم ہوئے اور قریشی سفارت کی تمام امیدوں پر اوس پڑگئی مگر نجاشی نے کسی کی بھی پروا نہ کی اور مسلمانوں کو اپنے ملک میں رہنے کی کھلے دل سے اجازت دی۔ اور وفد کو بری طرح ذلیل ہو کر واپس آنا پڑا۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد نجاشی نے ستر نو مسلم عیسائیوں پر مشتمل ایک وفد مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا۔ یہ لوگ جب قرآن سنتے تو ان پر رقت طاری ہوجاتی، وفور جذبات سے آنسو بہنے لگتے اور زبان سے ﴿ رَبَّنَا آمَنَّا﴾۔۔ کہنا شروع کردیتے۔ اس آیت میں انہی لوگوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ نجاشی کا غائبانہ نماز جنازہ :۔ شاہ حبشہ نجاشی اگرچہ آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکا تاہم مسلمان ضرور ہوچکا تھا اور اس پر واضح دلیل یہ ہے کہ جب وہ فوت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس کی وفات کی خبر دی پھر اس پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ (بخاری۔ کتاب الجنائز۔ باب الصفوف علی الجنازۃ)