سورة المآئدہ - آیت 15

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤١] اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب نے بے شمار آیات کی یا تو تاویل کر ڈالی تھی یا پھر انہیں لوگوں سے چھپایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی آیات کا علم عطا کیا ہوا تھا۔ پھر ان میں بہت سی آیات ایسی تھیں جن کا آپ نے یہود سے ذکر ہی نہیں کیا۔ کیونکہ انہیں بتانے کی کوئی حقیقی ضرورت نہیں تھی اور جن آیات کا ذکر کیا وہ بھی بہت تھیں تھوڑی نہیں تھیں جن کا بتانا دین حق کے قیام کے لیے ناگزیر تھا۔ جیسا کہ انہوں نے رجم کی آیت کو چھپانے کی کوشش کی تھی اور یہ بات درج ذیل حدیث سے صاف واضح ہے۔ یہود کا آیات اللہ کو چھپانا :۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ کے پاس ایک یہودی مرد اور عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے پوچھا ’’تم اپنی کتاب میں اس کا کیا حکم پاتے ہو؟‘‘ وہ کہنے لگے ’’ہمارے علماء ایسے لوگوں کا منہ کالا کر کے گدھے پر سوار کرتے اور گشت کراتے ہیں‘‘ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ان کے علماء کو تورات سمیت بلائیے۔ جب تورات لائی گئی تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے سے پڑھنا شروع کردیا۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اسے کہا ’’اپنا ہاتھ تو اٹھاؤ‘‘ اس نے ہاتھ اٹھایا تو اس کے نیچے سے رجم کی آیت نکلی۔ چنانچہ آپ نے انہیں رجم کا حکم دے دیا اور وہ سنگسار کیے گئے۔ (بخاری۔ کتاب المحاربین۔ باب الرجم بالبلاط۔ مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب رجم الیہود اہل الذمۃ فی الزنیٰ) یا جیسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے متعلق سب آیات کو چھپا جاتے تھے۔ [٤٢] اگرچہ اس آیت میں بعض علماء نے نور سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات با برکات بھی لی ہے تاہم اکثر مفسرین نور کو کتاب مبین ہی کی صفت قرار دیتے ہیں اور واؤ کو عطف مغائرت کے بجائے عطف تفسیری سمجھتے ہیں اور اسکی وجہ درج ذیل ہیں۔ ١۔ اس آیت کی ابتدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پہلے ہی آ چکا ہے۔ یہ آیت یوں شروع ہوتی ہے۔ ﴿یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَاۗءَکُمْ رَسُوْلُنَا ......﴾ ٢۔ اگر نور اور کتاب مبین دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو بعد والی آیت میں ﴿یَھْدِی بِہِ اللّٰہُ﴾ کے بجائے ﴿یَھْدِیْ بِھِمَا اللّٰہُ﴾ آنا چاہیے تھا۔ ٣۔ قرآن میں قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں کو ہی بہت سے مقامات پر نور کہا گیا ہے مثلاً ١۔ ﴿وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا﴾ (4: 175)اور ہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا (قرآن کے لیے) ٢۔ ﴿ اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰیۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ ﴾ (5: 65)ہم نے ہی تورات اتاری جس میں ہدایت اور نور تھا (تورات کے لیے) ٣۔ ﴿وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ ہُدًی وَّنُوْرٌ ﴾ (5: 46)اور ہم نے (سیدنا عیسیٰ عليہ السلام) کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا (انجیل کے لیے) ٤۔ ﴿مَنْ اَنْزَلَ الْکِتٰبَ الَّذِیْ جَاۗءَ بِہٖ مُوْسٰی نُوْرًا وَّہُدًی لِّلنَّاسِ ﴾ (6: 16)وہ کتاب کس نے اتاری تھی جو موسیٰ لائے تھے جو لوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی (تورات کے لیے)۔ ٥۔ ﴿ وَاتَّبَعُوْا النُّوْرَ الَّذِیْ اَنْزَلَ مَعَہُ﴾ (٧ : ١٥٧) اور اس نور کی پیروی کی جسے ہم نے آپ کے ساتھ اتارا ہے (قرآن کے لیے) ٦۔ ﴿وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّھْدِیْ بِہِ مَنْ نَشَاءُ﴾ (٤٢ : ٥٢) لیکن ہم نے اس کو نور بنایا جس سے ہم جسے چاہیں ہدایت دیتے ہیں (قرآن کے لیے) ٧۔ ﴿فَامَنِوُاْ باللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ وَالنُّوْرِ الَّذِیْ اَنْزَلْنَا﴾ (٦٤ : ٨) تو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس نور پر بھی جسے ہم نے اتارا ہے۔ (قرآن کے لیے) نور وبشر کی بحث :۔ اس کے برعکس تمام انبیاء کو ہر مقام پر بشر ہی کہا گیا ہے البتہ ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سراجاً منیراً (روشنی دینے والا چراغ) بھی کہا گیا ہے (٣٣ : ٤٦) تاہم اگر یہاں نور سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی لیا جائے تو اس سے مراد نور نبوت اور نور ہدایت ہوگا نہ کہ وہ نور جس کی آج کل کے بریلوی حضرات نے رٹ لگا رکھی ہے کیونکہ مولانا احمد رضا خاں کا ترجمہ قرآن (کنز الایمان) اور اس پر مولانا نعیم الدین صاحب مراد آبادی کا حاشیہ (خزائن العرفان) یوں ہے :’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب‘‘ (کنز الایمان) اور اس پر حاشیہ یہ ہے کہ ’’سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور فرمایا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی‘‘ (خزائن العرفان) اکابر بریلوی علماء کی شہادت :۔ اسی طرح ﴿ وَّدَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا ﴾ کا ترجمہ یوں ہے ’’اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا ہے اور چمکا دینے والا نور ہے‘‘ (کنز الایمان) اور حاشیہ یوں ہے ’’درحقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نور نبوت نے پہنچائی اور کفر و ضلالت کے ظلمات شدیدہ کو اپنے نور حقیقت افروز سے دور کردیا اور خلق کے لیے معرفت الٰہی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کردیں اور ضلالت کی تاریک وادیوں میں راہ گم کرنے والوں کو اپنے نور ہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نور نبوت سے ضمائر اور قلوب و ارواح کو منور کیا۔‘‘ (خزائن العرفان) اگر یہ معاملہ یہیں تک محدود رہتا تو پھر بھی اختلاف کی کوئی بات نہ تھی۔ بھلا کون مسلمان ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور نبوت اور نور ہدایت ماننے کو تیار نہ ہوگا۔ اختلاف اس وقت واقع ہوا جب کچھ غالی قسم کے حضرات نے یہ مسئلہ پیدا کردیا کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور ہیں یا بشر؟ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں تھے بلکہ نور تھے اور جو لوگ آپ کو بشر کہتے تھے انہیں گستاخان رسول کا لقب دیا گیا۔ اور جو آپ کو نور تسلیم کریں انہیں عاشقان رسول کا۔ لفظی تحریف :۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمار مقامات پر بشر قرار دیا گیا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ ’’آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہی ہوں۔‘‘ اس کا کیا جواب دیا جائے؟ اس سوال کے دو طرح سے جواب تیار کیے گئے۔ ایک تو تحریف لفظی اور معنوی دونوں کے ضمن میں آتا ہے یعنی ﴿ قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ میں لفظ انما کے دو الگ الگ لفظ ان ما پڑھے گئے اور ما کو نافیہ قرار دے لیا گیا اور اس کا ترجمہ یوں کرلیا گیا ’’کہ تحقیق نہیں ہوں میں تمہاری طرح کا بشر‘‘ اس طرح یہ حضرات لفظی تحریف کے مرتکب ہوئے اور دوسرا جواب یہ سوچا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب کافروں کو دیا تھا۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہتے اور سمجھتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ چلو انہیں کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہی ہوں مگر رسول بھی ہوں۔ یعنی یہ جواب صرف کافروں کے لیے مخصوص تھا مسلمانوں کے لیے نہیں تھا کیونکہ حقیقتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں بلکہ نور تھے یہ معنوی تحریف ہوئی۔ اس جواب سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے متعلق جو تصور قائم ہوتا ہے وہ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بایں ہمہ یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا صحابہ کرام کے سامنے بھی اپنے بشر ہونے کا برملا اعتراف کیا تھا۔ ایسی تین مثالیں سورۃ کہف کی آیت نمبر ١١٠ کے تحت درج کردی گئی ہیں یعنی تین مستند اور صحیح احادیث معہ مکمل حوالہ لکھ دی گئی ہیں۔ جس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین بار اپنے لیے بشر ہونے کا اعتراف کیا تھا بلکہ صرف تین مثالیں اس لیے درج کی ہیں کہ ثبوت مدعا کے لیے یہ تین مثالیں بہت کافی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کس قسم کے نور تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سے انکار کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے میں بھی اختلاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس قسم کا نور ہیں۔ بریلوی اکابرین کے کچھ اقتباسات تو اوپر دیئے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ مفتی احمد یار صاحب بریلوی لکھتے ہیں کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کے نور ہونے کے نہ تو یہ معنی ہیں کہ (ا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے نور کا ٹکڑا ہیں (ب) نہ یہ کہ رب کا نور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا مادہ ہے (ج) نہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طرح ازلی، ابدی، ذاتی نور ہیں اور (د) نہ یہ کہ رب تعالیٰ حضور میں سرایت کر گیا ہے تاکہ کفر اور شرک لازم آئے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی نور ہیں جیسے اسلام اور قرآن نور ہیں۔‘‘ (رسالہ نور ص ٧ مصنفہ مولانا احمد رضا خاں صاحب) لیکن غالی حضرات اپنے اکابرین کی بات بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ ان میں (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہ) کا عقیدہ راسخ ہوگیا ہے یا کردیا گیا ہے۔ اور یہ الفاظ اس درود کا باقاعدہ حصہ ہیں جو بریلوی حضرات مساجد میں اکثر لاؤڈ سپیکر پر پڑھتے ہیں۔ اگر یہ لوگ (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ) کی بجائے (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ) یا (نُوْرٌ مِنْ انُوْار اللّٰہِ) کہتے تو پھر بھی اس کی کچھ توجیہہ کی جا سکتی تھی۔ لیکن (نُوْرٌ مِنْ نُوْرِ اللّٰہِ) تو ایسا واضح کفر و شرک ہے جسے مولانا احمد رضا خاں صاحب نے بھی کفر و شرک تسلیم کیا ہے۔ رہی یہ بات کہ ان لوگوں کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور ہونے کا کیا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس نظریہ کا ماخذ چند موضوع احادیث ہیں جو یہ ہیں : ١۔ آپ کو نور ثابت کرنے کے لئے موضوع احادیث کا سہارا :۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا :' اِنَّ اَوْلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرٌنَبِیُّکَ یَا جَابِرُ '(اے جابر! اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی ( محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نور کو پیدا کیا) اسی حدیث کو یوں بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 'اِنَّ اَوَّلَ مَاخَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِی' (بے شک پہلی چیز جو اللہ نے پیدا کی وہ میرا نور تھا) یہ حدیث مصنف عبدالرزاق کی ہے اور بلاسند ہے۔ مصنف عبدالرزاق چوتھے درجہ کی حدیث کی کتاب ہے جس میں ضعیف اور موضوع احادیث کی بھرمار ہے۔ پھر بلا سند حدیث ویسے بھی محدثین کے نزدیک مردود اور ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔ ٢۔ حکیم ترمذی کی کتاب نوادر الاصول میں ذکوان سے روایت کی گئی ہے کہ ’’سورج اور چاند کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سایہ نہیں ہوتا تھا‘‘ اب نوادر الاصول کی حدیث کی کتابوں میں جو قدر و قیمت ہے وہ سب جانتے ہیں۔ حکیم ترمذی خود طبقہ صوفیاء سے تعلق رکھتے تھے۔ جن سے محدثین 'اَخَذَتْہُ غَفْلَۃُ الصَّالِحِیْنَ' کہہ کر کوئی حدیث قبول کرنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ اور یہ ذکوان خود تابعی ہیں (صحابی نہیں ہیں) پھر جب انہوں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہی نہیں تو ان کے متعلق ایسی محیر العقول بات کیسے کہہ سکتے ہیں اور اگر کسی صحابی سے سنا تھا تو اس کا نام کیوں نہیں بتاتے۔ غرض یہ حدیث بھی ہر لحاظ سے ساقط الاعتبار اور موضوع ہے۔ علاوہ ازیں اس حدیث کے باقی راوی بھی کذاب اور مفتری قسم کے ہیں۔ ٣۔ تیسری حدیث یوں ہے ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ سے سوئی گر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد چہرہ یا مسکراہٹ کی روشنی کی وجہ سے وہ مل گئی۔‘‘ اس حدیث کو اور اس سے پہلی سایہ والی حدیث دونوں پر تبصرہ کرنے کے بعد سید سلیمان ندوی نے موضوع قرار دیا ہے۔ (سیرۃ النبی ج ٣ ص ٧٧٥، ٧٧٦) پھر یہ احادیث عقلی لحاظ سے بھی ساقط الاعتبار ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سورج سے بھی زیادہ روشنی تھی اور اس بات کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم مکہ اور مدینہ میں رات کا اور تاریکی کا وجود ہی باقی نہ رہتا۔ جسے اللہ تعالیٰ نے آرام کے لیے بنایا اور اپنی عظیم نعمتوں سے شمار کیا ہے۔ پھر یہ بھی غور فرمائیے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی سورج جیسی تھی تو پھر گھر میں داخل ہونے پر گمشدہ سوئی ملنے کا کیا مطلب؟ سورج کی روشنی تو از خود ہر جگہ پہنچ جاتی ہے۔ اب ان موضوع احادیث کے مقابلہ میں صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ صحیح احادیث سے موضوعات کا رد :۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ قلم ہے۔ پھر قلم سے کہا 'لکھو' قلم نے پوچھا’’کیا لکھوں؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہر اس چیز کی تقدیر لکھو جو ہوچکی یا تاقیامت تک ہونے والی ہے (وجود میں آنے والی ہے) اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ (ترمذی ابو اب القدر۔ باب بلا عنوان) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو نہیں بلکہ قلم کو پیدا فرمایا تھا۔ ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ’’ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا۔ میں نے گمان کیا کہ شاید وہ کسی دوسری بیوی کے ہاں چلے گئے ہوں پھر جب میں نے ٹٹولنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ آپ سجدہ میں تھے۔‘‘ (نسائی جلد ٢ ص ٨٦) اس حدیث سے ان لوگوں کے اس نظریہ کی تردید ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا آپ سے سورج اور چاند جیسی روشنی پھوٹتی تھی جس سے گم شدہ سوئی بھی نظر آ سکے۔ ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رات کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز (تہجد) ادا کرتے تو میں آپ کے سامنے پاؤں دراز کئے پڑی ہوتی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرنے لگتے تو مجھے ہاتھ لگاتے تو میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرماتے تو میں پاؤں لمبے کرلیتی۔ (بخاری۔ کتاب التہجد۔ باب مایجوز من العمل من الصلوۃ ) اس حدیث سے اس نظریہ 'نور' کی تردید ہوجاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کے دوران بھی گھر میں اندھیرا ہی رہتا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ لگا کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو متنبہ کرتے تھے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرنے والے ہیں۔ نظریہ نور والی حدیث دراصل یونانی فلسفہ سے متاثر ہو کر گھڑی گئی۔ فلاسفر جس چیز کو عقل دوم کہتے ہیں صوفیاء اسے ہی نور محمدی کہتے ہیں۔ اب اس موضوع حدیث کی مزید تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے جابر! تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے اپنے نور سے تیرے نبی کا نور پیدا کیا۔ پھر وہ نور قدرت الٰہیہ ہے جہاں اللہ کو منظور ہوا سیر کرتا رہا اور اس وقت نہ لوح تھی، نہ قلم، نہ بہشت نہ دوزخ، نہ آسمان و زمین، نہ سورج چاند، نہ جن اور نہ انسان۔ پھر جب اللہ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کیے۔ حصہ اول کا قلم بنایا۔ حصہ دوم کی لوح، تیسرے حصہ کا عرش اور چوتھے سے کل کائنات (شرح قصیدہ حمزیہ ١٥ بحوالہ ریاض السالکین ص ٢٤٨) یہ حدیث سننے کے بعد ممکن ہے آپ کو یہ معلوم کرنے کی خواہش ہو کہ اس نور نبی کو پیدا ہوئے کتنی مدت ہوچکی تھی؟ تو لیجئے اس کے لیے بھی ایک موضوع حدیث حاضر خدمت ہے۔ ’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ تمہاری عمر کتنی ہے؟ جبرئیل نے عرض کی ’’آقا! میں اپنی عمر ٹھیک طرح سے نہیں جانتا مگر اتنا جانتا ہوں کہ چوتھے حجاب میں ایک ستارہ تھا جو ستر ہزار سال کے بعد طلوع ہوا کرتا تھا اور میں نے اس کو بہتر ہزار مرتبہ دیکھا ہے۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مجھے پروردگار کے عزت و جلال کی قسم! وہ ستارہ میں ہی ہوں۔‘‘ اب دیکھئے کہ جبرئیل نے اپنی عمر ٧٠٠٠٠ x ٢٠٠٠=٧ پانچ ارب چون کروڑ سال بتائی ہے اور یہ ستارہ یعنی نور نبی اس سے بہرحال مدتوں پہلے کا تھا۔ اس موضوع حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نور کی عمر نہیں بتائی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس 'حدیث تراش' کو اس سے زیادہ حساب آتا ہی نہ تھا۔ پھر یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اس نور نبی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے چہرے کے نور سے پیدا کیا تھا۔ کیونکہ اس بات کا اقرار اللہ تعالیٰ خود ان الفاظ میں فرما رہے ہیں (گویا یہ موضوع حدیث حدیث قدسی ہے) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چہرے کے نور سے پیدا کیا۔‘‘ اور چہرہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس ہے۔ (سر الاسرار ١١٦ سطر ٨ بحوالہ ریاض السالکین ص ٩٠) پھر اللہ تعالیٰ نے اس موضوع قدسی حدیث کی تائید ایک اور موضوع قدسی حدیث سے فرما دی جو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’تو میں ہوں اور میں تو ہے‘‘ (جواہر غیبی ٢٨٢ بحوالہ ریاض السالکین ص ٩٢) اسی موضوع قدسی حدیث کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں فرمائی کہ (میں اللہ کے نور سے ہوں اور کل میرے نور سے ہیں) (مدارج النبوت ج ٢ ص ٦٠ بحوالہ ریاض السالکین ص ٢٤٩) اب بات یوں ہوئی کہ اللہ نے سب سے پہلے نور محمدی کو پیدا کیا اور یہ نور ایک ستارہ تھا یا ایک ستارہ میں تھا۔ جس سے سیدنا جبریل نے اپنی عمر کا حساب بتلایا تھا۔ اب اس نور محمدی یا ستارہ سے ہی عرش، لوح و قلم، کرسی، بہشت دوزخ اور شمس و قمر اور باقی ساری کائنات پیدا کیے جا رہے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ کائنات کی ہر چیز میں نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہے اب اس نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور موضوع اور قدسی حدیث گھڑی گئی جو یہ ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’میری عزت اور جلال کی قسم اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا۔‘‘ (ریاض السالکین ص ٢٤٤) اور ایک دوسری موضوع قدسی حدیث یوں بھی آئی ہے 'لَوْلاَکَ لَمَا خَلَقْتُ الاَفْلاَکَ ' (ریاض السالکین ص ١٩١) یعنی اگر اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تم نہ ہوتے تو میں کائنات کی کوئی چیز بھی پیدا نہ کرتا۔ پھر اس کی تائید میں ایک اور موضوع حدیث بھی ملاحظہ فرمائیے : جب سیدنا آدم جنت سے نکال کر دنیا میں بھیجے گئے تو ہر وقت روتے اور استغفار کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو عرض کی ’’اے باری تعالیٰ ! سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے مغفرت چاہتا ہوں۔‘‘ وحی نازل ہوئی کہ ’’بتاؤ تو محمد کون ہیں؟‘‘ عرض کی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پیدا کیا تو میں نے عرش پر لکھا ہوا دیکھا ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ میں سمجھ گیا کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی اونچی ہستی نہیں ہے۔ جس کا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نام کے ساتھ لکھ رکھا ہے۔ وحی نازل ہوئی کہ وہ خاتم النبیین ہیں۔ تمہاری اولاد میں سے ہیں لیکن وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کیے جاتے۔ (ریاض السالکین ص ٣٠٢) اب دیکھئے کہ ان موضوع حدیث میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ پھر سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ قبول بھی ہوئی تھی یا نہیں۔ الٹا اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر سیدنا آدم علیہ السلام کو اور بھی مایوس کردیا کہ ’’اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی نہ ہوتے۔‘‘ غور فرمائیے کہ اگر کسی سائل مغفرت کو ایسا جواب دیا جائے تو اس کے دل پر کیا بیتتی ہے؟ البتہ اس حدیث نے اور کئی مسئلے حل کردیئے مثلاً (١) خواہ کتنے ہی برس اللہ سے رو رو کر مغفرت چاہیں قبول نہیں ہوتی جب تک کسی کا وسیلہ نہ پکڑیں اور یہ بات قرآن کی تعلیم ﴿ وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ﴾ کے بالکل برعکس ہے۔ ٢۔ پھر یہ وسیلہ اپنے نیک اعمال یا کسی زندہ بزرگ ہستی کا نہیں بلکہ ایسی ہستی کا بھی ہوسکتا ہے جو ابھی تک وجود میں نہ آئی ہو۔ یا پاس موجود نہ ہو۔ کاش یہ باتیں سیدنا آدم کو اتنی مدت رونے سے پہلے ہی معلوم ہوجاتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور ثابت کرنے کی ضرورت اور فوائد :۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے نور ثابت کرنے کے اور بھی کئی فوائد ہیں۔ پہلا یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ حاضر و ناظر ہے آپ بھی اسی طرح حاضر و ناظر ہوئے۔ چنانچہ عرشی صاحب نے مندرجہ ذیل قرآنی آیت سے اس کا ثبوت بھی مہیا فرما دیا ہے ﴿وَیَکُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ﴾ (2: 143)اور رسول تم پر گواہ یعنی حاضر و ناظر رہتے ہیں۔ جب رسول پاک ہر وقت گواہ رہتے ہیں تو پھر اپنے امتی کے اعمال سے باخبر ہیں کہ فلاں کے اعمال کیسے ہیں اور دین کے کس درجہ میں ہے؟ (ریاض السالکین ص ٢٣٤) حاضر و ناظر کی یہ دلیل تو خوب ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس آیت کا اگلا حصہ یوں ہے ﴿لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ ﴾ پھر کیا تمام صحابہ کرام بھی حاضر و ناظر ہیں جو دوسرے لوگوں کے گواہ اور ان کے اعمال کے نگران ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کی خصوصیت کیا رہی؟ البتہ اس کھینچا تانی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر ثابت کرنے کا ایک فائدہ ضرور ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ تمام پیروں فقیروں یعنی اولیاء اللہ کے حاضر و ناظر ہونے اور اپنے مریدوں کے اعمال پر نگران بنے رہنے کا راستہ صاف ہوجاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے نور سے نور ثابت کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ یا نور کو موت نہیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی دائمی زندگی ثابت کی جاتی ہے اور تصرف فی الامور بھی۔ اگر یہ کام نہ کیا جاتا تو پیروں، فقیروں اور بزرگوں یعنی اولیاء کرام کی موت کے بعد دائمی زندگی اور تصرف فی الامور کا راستہ کبھی بھی صاف نہ ہوسکتا تھا۔