سورة النسآء - آیت 172

لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” عیسیٰ کو ہرگز اس سے عار نہیں کہ وہ اللہ کابندہ ہو کر رہے اور نہ ہی مقرب فرشتوں کو عار ہے اور جو بھی اس کی بندگی سے ننگ وعار رکھے اور تکبر کرے تو عنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔“ (١٧٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٢٩] الوہیت مسیح کی تردید :۔ اس آیت میں الوہیت مسیح کی تردید میں ایک اور دلیل پیش کی گئی ہے۔ جو یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا بندہ اور غلام بن کر رہنے میں کچھ عار محسوس کرنا تو درکنار، اسے قابل فخر سمجھتے تھے اور یہی حال مقرب فرشتوں کا بھی ہے۔ لہٰذا نہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کی الوہیت میں شریک بن سکتے ہیں اور نہ مقرب فرشتے۔ کیونکہ جو کسی کا بندہ اور غلام ہو وہ اس کا شریک نہیں ہو سکتا۔ اور جو اس کا شریک ہو وہ اس کا بندہ اور غلام نہیں ہو سکتا۔ عیسائیوں پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے عبادت کرنے سے حجت اس لیے قائم کی گئی کہ وہ خود اس بات کا اقرار کرتے تھے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام زیتون کی پہاڑی پر اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ان سے پوچھا یہ جا رہا ہے کہ اگر وہ اللہ یا اللہ کا حصہ یا اللہ کا بیٹا تھے تو وہ اس کی عبادت کیوں کرتے تھے؟ پھر فرشتے ایسی مخلوق ہیں جن کا نہ باپ ہے اور نہ ماں۔ لیکن اللہ ہونے کے وہ بھی مدعی نہیں بلکہ وہ بھی برضا و رغبت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ پھر جب فرشتے جو عیسیٰ علیہ السلام سے لطیف تر مخلوق ہیں، اللہ کی عبادت میں عار محسوس نہیں کرتے تو پھر عیسیٰ علیہ السلام کیسے کرسکتے ہیں؟۔