سورة النبأ - آیت 38

يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَةُ صَفًّا ۖ لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَقَالَ صَوَابًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جس دن جبریل اور ملائکہ قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے کوئی بھی بات نہیں کر پائے گا سوائے اس کے جسے رحمٰن اجازت دے گا اور وہ صحیح بات کرے گا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٥] وقال صوابا کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ سفارش کرنے والا ایسے شخص کے حق میں ہی سفارش کرسکے گا جس نے دنیا میں درست بات کہی ہوگی اور درست بات سے مراد کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ ہے۔ یعنی سفارش ایسے گنہگار کے حق میں تو کی جاسکے گی جو توحید پر قائم اور اللہ کا فرمانبردار رہا ہو۔ مگر کسی مشرک یا اللہ کے باغی کے حق میں سفارش نہ کی جاسکے گی اور دوسرے مطلب کے لحاظ سے یہ دونوں صفات سفارش کرنے والے کی ہیں۔ یعنی سفارش وہی شخص کرسکے گا جسے اللہ کی طرف سے اجازت ملے گی اور سفارش کرتے وقت وہ درست بات ہی کرے گا جو اللہ کی رضا کے مطابق ہوگی یعنی اللہ تعالیٰ اس گنہگار کے جس جرم کے متعلق سفارش قبول کرنا چاہے گا، سفارش کرنے والا صرف وہی سفارش کرے گا۔