إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا
درحقیقت یہ ہے کہ رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کار گر اور قرآن پڑھنے کے لیے بہت موزوں ہے
[٦] تہجد کا لغوی مفہوم :۔ پانچ نمازوں کی فرضیت تو معراج کو ہوئی تھی۔ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہی رات کی نماز ہی پڑھا کرتے تھے۔ نماز باجماعت کا بھی کوئی اہتمام یا حکم نہیں تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے اپنے گھروں میں یہ نماز اپنے اپنے طور پر ادا کرلیا کرتے تھے۔ جب معراج میں پانچ وقت نمازیں فرض ہوئیں تو یہ نماز صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے فرض رہ گئی باقی مسلمانوں سے اس کی فرضیت ساقط کردی گئی۔ البتہ اس کے ادا کرنے کی ترغیب ضرور دی گئی۔ اب اس نماز کی حیثیت عام مسلمانوں کے لیے سنت موکدہ کی ہے۔ اس کے اوقات بھی مختلف تھے۔ کئی مسلمان اسے رات کے ابتدائی حصہ میں ادا کرلیا کرتے تھے۔ بعض دوسرے پچھلے حصہ میں یہ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قیام اللیل کی ایک صورت وہ تھی جو اوپر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں مذکور ہے۔ اور لغوی لحاظ سے لفظ تہجد یا ھجود کا یہی معنی ہے۔ یعنی رات بھر میں کئی بار سونا بھی اور جاگنا بھی۔ پھر جب پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو بھی یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے فرض ہی رہی اور اس کا وقت نصف شب سے لے کر طلوع فجر تک قرار پالیا۔ یعنی اس عرصہ کے درمیان کسی بھی وقت یہ نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ ان آیات سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ سورۃ مزمل کے نزول سے پہلے قرآن کا اتنا حصہ نازل ہوچکا تھا جسے اس لمبی نماز میں ترتیل کے ساتھ پڑھا جاسکتا تھا۔ [٧] وَطَأ بمعنی روندنا، پامال کرنا، سب کس بل نکال دینا۔ یعنی رات کو جاگ کر اپنے نفس کو اللہ کی عبادت پر آمادہ کرنا نفس کی سرکشی کو دور کرنے اور اس کے کس بل نکالنے کے لیے بہت موثر علاج ہے۔ البتہ اس سے نفس کو کوفت بہت ہوتی ہے۔ اور﴿وَطَأ عَلَی الاَمْرِ﴾ کا دوسرا معنی کسی کام کو اپنی مرضی کے موافق آسان بنالینا بھی ہے۔ گویا شب بیداری اگرچہ نفس پر بہت گرانبار ہے تاہم یہ نفس کی اصلاح کے لیے اور جس کام کے لیے ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کرنا چاہتے ہیں، نہایت مناسب اور مفید رہے گی۔ [٨] ﴿ أقْوَمُ قِیْلاً﴾ یعنی بات کو زیادہ درست بنانے والا۔ یعنی شب بیداری کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس وقت دل و دماغ تازہ ہوتے ہیں۔ شوروغل نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس وقت جو قرآن پڑھا جائے گا۔ طبیعت پوری توجہ سے اس میں غور و فکر کرے گی۔ گویا قرآن کے مطالب سمجھنے اور اس سے اثر پذیری کے لیے یہ وقت موزوں ہے۔